Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete
Episode No 22
حناوے از نور راجپوت
یہ عشق بھی کیا ہے ؟
اسے اپنائے کوئی اور چاہوں میں
کسی اور کو یاد آئے کوئی اور
اس شخص کی محفل کبھی بر پا ہو تو دیکھو
ہو ذ کر کسی اور کا شرمائے کوئی اور
اے ضبط انا مجھ کو یہ منظر ناد کھانا
دامن ہو کسی اور کا پھیلائے کوئی اور
سر نوک سینا پر ہے بدن رزق زمین ہے
مقتل سے میرا الم اٹھا لائے کوئی اور
سینے میں عجب آگ ہے اک عمر سے پنہاں
خواہش ہے کے اس آگ کو دہکائے کوئی اور
مجھ پر نہیں کھلتا میر اسوچا ہوا
اک لفظ مطلب مجھے اس لفظ کا سمجھائے کوئی اور
ایک عجیب سی آگ اس کے اندر دہک رہی تھی۔ وہ بے سدھ بیڈ پر پڑا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ اور حناوے اسکی آنکھوں کے سامنے مجسم تھی۔ بڑی بڑی آنکھیں ، گھنے بال جو جوڑے کی شکل میں بند تھے رقص کے دوران کھل کر اسکی کمر پر بکھر گئیے تھے۔
کلائیوں میں سرخ چوڑیاں، اور ہاتھوں پر لگی مہندی۔۔ اور پاؤں میں گھنگرو۔۔
اس نے آج تک اتنی خوبصورت طوائف نہیں دیکھی تھی۔ یا وہ اسے بہت خوبصورت لگی تھی۔
ملک صاحب آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔؟؟
خان پریشانی کے عالم میں پوچھ رہا تھا۔ جب سے وہ آیا تھایوں خاموش آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔
“خان۔۔۔ ” امن کی گھمبیر آواز گونجی تھی۔
جی ملک صاحب۔۔” خان اپنی جان لے حاضر تھا۔
میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔” امن کی آواز میں عجیب ساسوز تھا۔ عجیب سی آنچ تھی۔
میں دیکھتا ہوں ملک صاحب۔۔”
خان نے آگے بڑھ کر ادب سے امن ملک کے ماتھے کو چھوا تھا۔
آپکو تو بہت تیز بخار ہے ملک صاحب۔۔”
خان پریشانی کے عالم میں بولا تھا۔
مجھے ٹھنڈا پانی دو خان۔۔ میرے اندر کچھ جل رہا ہے۔۔ ”
امن اب نیم بے ہوشی کی حالت میں بولا تھا۔
بھی لا یا ملک صاحب۔۔”
خان پھرتی سے کمرے سے باہر نکلا تھا۔
اور کچھ دیر بعد پانی کے ساتھ حاضر ہوا تھا۔
ملک صاحب پانی پی لیں۔۔”
خان نے سہارا دے کر امن کو اٹھانا چاہا تھا۔ غنودگی کی حالت میں امن نے دو گھونٹ پانی پیا تھا۔ میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔۔” خان نے اسے واپس لٹانے کے بعد ڈاکٹر کو فون کیا تھا۔ وہ تشویش سے امن ملک کو دیکھ رہا تھا۔ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔
جنگل سے گزر کر آئیے ہیں ملک صاحب یقینا کوئی بر اسا یہ آس پاس سے گزرا ہو گا۔۔
خان کی اپنی منطق تھی۔ وہ خود سے کہتا وضو کرنے چلا گیا تھا۔ اور کچھ دیر وہ امن کے بیڈ کے قریب اسکے سر پر کھڑا اسے سورہ رحمن پڑھ کر دم کر رہاتھا
یا اللہ کہاں چلی گئی ہی ہیں یہ لڑکیاں۔۔؟؟ فاریہ بیگم بو کھلائی کی سی پورے رانا ہاوس میں گھوم رہی تھیں۔ گھر میں عجیب سی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے حناوے اور امن کو پکارا تھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
اب نیچے والا پورا پورشن چھان مارا تھا لیکن حناوے اور امن کے ساتھ ساتھ هدی، منال اور سماب بھی غائب تھیں۔
بی بی جی اوپر والے سارے کمرے چیک کرلے لیکن وہ پانچوں گھر پر نہیں ہیں۔۔
ملازمہ نے آکر خبر دی تھی۔ اب تو صحیح معنوں میں فاریہ بیگم کے ہوش اڑے تھے۔
تم نے اچھے سے دیکھانا۔۔؟؟” وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھیں۔
باہر جاکر پوچھو گارڈ سے اس نے ان پانچوں کو باہر جاتے تو نہیں دیکھا۔۔” فاریہ بیگم نے ملازمہ کو حکم دیا تھا جو سر ہلا کر چلی گئی تھیں۔
یا اللہ بچوں کی حفاظت کرنا ۔۔”
وہ دل ہی دل میں دعا مانگتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی تھیں۔ اوپر آنے کے بعد سب سے پہلے حناوے کا کمرہ چیک کیا۔ لیکن وہ سائیں سائیں کر رہا تھا البتہ بیڈ پر میک اپ کا سامان۔۔ جیولری اور پتا نہیں کیا کیا بکھر اپڑا تھا۔
فاریہ بیگم دھک سے رہ گئی تھیں۔
اب انہوں نے باری باری سارے کمرے دیکھنے شروع کر دیے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا فاریہ بیگم کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔
یہ سب حناوے کا کارنامہ ہو گا۔۔ وہی باقی لڑکیوں کو الٹی راہ پر لگاتی ہے۔۔ شہناز تائی بری طرح تپتی ہوئی تھیں۔ ملازمہ نے انہیں خبر کر دی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں حناوے سے چڑ ہونے لگی تھی۔ فاریہ بیگم خاموشی سے انکی باتیں سن رہی تھیں۔
صرف نمل کا کمرہ رہ گیا تھا۔ کچھ سوچتے ہوئے فاریہ بیگم نمل کے کمرے کی طرف بڑھیں۔
جیسے ہی انہوں نے کمرہ کھولا سامنے کا منظر دیکھ کر انکا سانس اٹک گیا۔ اور پھر کچھ لمحوں بعد رکا ہو ا سانس بحال ہوا تھا۔
تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟” وہ پانچوں نمل کے بیڈ پر بیٹھے تھے۔
کچھ نہیں وہ ہم ۔۔” امن سے جواب نہیں بن پایا تھا۔ فاریہ بیگم پریشان چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھیں جنکے چہرے پر ہوائی یاں اڑی ہوئی تھیں۔
یہ تم نے کیا حالت بنارکھی ہے حناوے۔۔؟؟ حناوے کا حلیہ دیکھ فاریہ بیگم نے پوچھا تھا۔
وہ ہم پر کیکٹس کر رہے میک اپ کی۔۔ ” حناوے نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ لوگ بس کچھ منٹ پہلے کھڑ کی سے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
لیکن تم لوگ نمل کے کمرے میں کیا کر رہے ہو ؟؟ فاریہ بیگم کا شک کم نہیں ہوا تھا۔
ارے ماما یہ ڈائیان مجھ سے چھپ رہی تھی لیکن آپکو پتا ہے مجھ سے چھپ نہیں سکتی۔۔ مجھ سے بچنے کیلے یہ چاروں اس کمرے میں آئی تھیں
لیکن میں نے ڈھونڈ لیا۔۔
ہم چلتے ہیں۔۔
امن اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔
وہ ابھی بچہ تھا۔۔ اسکاذہن بچوں والا تھا اسے ایڈوانچر ز پسند تھے۔۔اسے صحیح
غلط کی تمیز نہیں تھی ابھی۔۔
اسی لیے وہ ہر الٹے کام میں ان چاروں کا ساتھ دیتا تھا۔
فاریہ بیگم کے جانے کے بعد شہناز تائی کی نمل کے کمرے کی طرف بڑھیں۔
ان چاروں کی شکلیں دیکھ انہیں بھی کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
ھدی میرے ساتھ چلو۔۔ ” حناوے کو گھورتی ہوئی وہ ھدی سے کہہ رہی تھیں۔
، آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔”
ھدی نے لہجے کو ہموار بناتے ہوئیے جواب دیا۔
ابھی چلو۔۔” شهناز تائی کی سپاٹ چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھیں۔ ھدی نے انکی بات ماننے میں ہی عافیت جانی تھی۔
وہ ان تینوں کو پر سکون رہنے کا اشارہ کرتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ دروازہ بند ہو گیا تھا۔ پیچھے ان تینوں کا بھی رکا ہوا سانس بحال ہوا تھا۔