Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Episode No 23

 

                                                                          حناوے از نوراجپوت                                                                                                       

دودن بعد ا من خان کے ساتھ اسی جنگل میں موجود تھا۔ یہاں گاڑی رکی تھی یہاں تھی وہ۔۔”

امن عجیب سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر وحشت سی چھائی تھی۔

ملک صاحب جب وہ لڑکی یہاں رقص کر رہی تھی آپ تب ہی اس سے بات کرتے اور پوچھتے وہ کون تھی۔۔ خان سر جھکائے ہاتھ باندھے کہہ رہا تھا۔

، مجھے ہوش نہیں رہا خان۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کیا ہوا تھا میرے ساتھ ۔۔” امن بے جان سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ اسے اپنے جسم میں ابھی بھی کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ دو دن وہ تیز بخار میں پھنکتا رہا تھا۔ اسے کبھی بچپن میں بخار ہوا تھا اور اب سالوں بعد ۔۔

خان نے اسکی دل سے خدمت کی تھی۔ امن کو کانٹا بھی چبھتا تھا تو در دخان کو ہوتا تھا۔ خان کیلیے امن کی بہت اہمیت تھی۔ وہ خود کو اسکا غلام مانتا

تھا۔

یہاں سے گئی  تھی وہ ۔۔ یہاں غائب ہو گئی  تھی۔۔ ” امن نے آگے بڑھ کر درخت کی طرف اشارہ کیا جسکے پیچھے حناوے غائب ہوئی  تھی۔

میں اسے کہاں ڈھونڈوں۔۔ میر ادل اسے دوبارہ دیکھنے کو مچل رہا ہے۔۔ ” امن اپنی کیفیت بیان کر رہا تھا جبکہ خان خاموشی سے سن رہا تھا۔

مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر میں نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا تو میری جان  بے جان ہو جائیے پھر سے ۔۔

ملک صاحب آپ بتار ہے وہ حلیے سے ایک طو۔۔ طوائف لگ رہی  تھی۔۔ اور آپ اچھے سے جانتے ہم اسے کہاں ڈھونڈ سکتے ہیں۔۔ خان نے کچھ بولنے کی جرات کی تھی۔ امن اسکی بات پر چونکا تھا۔

ٹھیک کہہ رہے ہو تم خان۔۔ ہم اسے ڈھونڈ سکتے ہیں۔۔” امن کو کچھ امید ملی تھی۔ وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھا۔ خان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو امن اندر بیٹھ گیا۔ خان گاڑی چلا رہا تھا اب انکارخ شہر میں موجود ان جگہوں کی طرف تھا جہاں اسکے ہونے کے امکانات تھے۔

قسم سے حناوے تم کمال لگ رہی تھی۔۔ ” حناوے سماب کے ساتھ مل کر اپنے ہی رقص کی ویڈیودیکھ رہی تھی۔

مجھے بھی حیرت ہو رہی ہے کہ یہ میں ہی ہوں ؟؟ حناوے آنکھیں پھیلائے کہہ رہی تھی۔

“ ویسے تم نے کمال کر دیا تھا۔۔ ”

سماب نے کھلے دل سے اسکی تعریف کی تھی۔

کمال تو ہی ہوا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی کی اور ہم اتنا بڑا ایڈوانچر کر آئیے ہیں۔۔ منال نے ہنستے ہوئے کہا۔

واقعی۔۔ ورنہ میں تو ساری رات ڈرتی رہی تھی کہ اگر کسی کو پتا چل گیا “

تو۔۔۔۔؟؟

حناوے نے جھر جھری سی لی تھی۔

، لیکن حناوے تمہیں ڈانس کرتے کسی نے دیکھا تھا۔۔ ” سماب نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا۔

“کس نے۔۔؟؟ ،،

حناوے ٹھٹھکی!!!!!!!

تم بھول گئی  ایک گاڑی آکر رکی تھی۔۔ تم راستے میں ڈانس کر رہی  تھی شاید اس لئے انہوں نے گاڑی روک لی۔۔ لیکن پتا نہیں چلا کہ وہ کس کی گاڑی تھی۔۔ کون تھا گاڑی میں۔۔ سماب نے کچھ سوچتے ہوئے بتایا۔

جو بھی تھا اس نے یہی سمجھا ہو گا کہ اتنی رات کو جنگل میں انسان تو ڈانس  کرنے سے رہے۔۔ یقینا کوئی چڑیل ہو گی۔۔ منال کی بات پر وہ تینوں ہنس دی تھیں۔

جو بھی تھا ہمیں کیا۔۔ ہمیں بس خوش ہونا چاہیے کہ یہ کام بنا کسی رکاوٹ  کے ہو گیا اور ہمیں کوئی  نقصان بھی نہیں ہوا۔۔ حناوے اسی بات کو لے کر خوش تھی کہ شاہ ویز اور خضر کے عتاب سے بچ گئی

 تھی۔

باقی سب کی خیر تھی۔

لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ جس شخص کی اس پر نظر پڑگی  تھی وہ شاہ ویز حسن اور خضر حیات سے بھی آگے کی چیز تھا۔۔۔ اسکے عتاب سے کوئی  نہیں بچ پایا تھا

تیری تلاش میں گم ہو گئے سبھی رستے

 میں ایسی راہ پہ ہوں جو کہیں نہیں جاتا

صبح سے رات ہو گی تھی امن شہر کے تقریباً سبھی طوائفوں کے کو ٹھے چھان آیا تھا لیکن حناوے اسے کہیں نہیں ملی تھی۔

وہ گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائیے بیٹھا تھا۔ آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ خان اسکی حالت سمجھ رہا تھا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر پارہا تھا۔ امن کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ پیاس بڑھتی جارہی تھی لیکن پانی کا کوئی نام نہیں تھا۔

خان وہ مل جائیے گی نا۔۔؟؟

حسرت سے بھر پور لہجے میں پوچھا گیا تھا۔

آپ فکر نہیں کریں ملک صاحب ۔۔ خان اسے آپکے قدموں لا کر ڈال دے گا۔۔

خان نے اسے یقین دلایا تھا۔

میں اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہوں بس۔۔ محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ واقعی وہ  ہے بھی یا نہیں۔۔

خان کو پہلے پکا یقین تھا امن نے جس لڑکی کو رقص کرتے دیکھا تو وہ لڑکی نہیں یقینا کوئی  اور مخلوق تھی لیکن جب قدیر نے تصدیق کی وہاں واقعی لڑکی تھی تو خان سوچ میں پڑ گیا۔

ایک طوائف کا جنگل میں رقص کرنے کا کیا مطلب تھا۔۔ شہر کی رونق کو  چھوڑ کر وہ جنگل میں کیوں جائیے گی۔۔؟؟

 سوال خان کے ذہن میں گردش کر رہے تھے لیکن اسکی ہمت نہیں تھی کہ وہ امن ملک سے سوال کرے۔ وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔

کچھ پل ہی گزرے تھے جب گاڑی میں چھائی  خاموشی کو امن کے فون پر ہونے والی رنگ نے توڑا تھا۔

امن چونک کر سیدھا ہوا۔ موبائل دیکھا تو علیزے کی کال تھی۔ امن کے چہرے پر بے زاری پھیل گئی ۔ اس نے کال کاٹنے کے بعد نمبر بلاک کیا اور فون بند کر دیا۔ اس وقت جب وہ پری پیکر اسکے خیالات پر سوار تھی وہ کسی اور کی مداخلت نہیں چاہتا تھا۔

، پلیز حناوے کر دو نا میرا کام۔۔ صرف ایک تم ہی ہو جو کر سکتی ہو۔۔ ” هدی حناوے کو مکھن لگارہی تھی۔

ڈائری تمہاری، اس میں موجود شاعری تمہاری اور عاشقی بھی تمہاری۔۔” جس نے ڈائری پکڑی وہ بھائی بھی تمہارا تو میں کیوں پھنسوں ؟؟

حناوے نے طنزیہ لہجے میں کہا تھا۔

دیکھو پلیز شاہ ویز بھیا گھر نہیں ہیں۔۔ تم ہی ہو جو انکے کمرے سے میری  ڈائری اٹھا کر لا سکتی ہو ۔۔ پلیز میرا کام کر دو۔۔ ھدی اب منتیں کر رہی تھی۔

بالکل بھی نہیں ۔۔ بعد میں میر اجنازہ اٹھے گا۔۔ ” حناوے نے گردن ناں میں ہلائی ۔

تم میرا اتنا سا کام نہیں کرو گی۔۔” ھدی نے رونے کا ڈرامہ کرتے ہوئے کہا۔

بالکل بھی نہیں ۔۔” حناوے نے صاف انکار کیا۔

پلیز ھدی نے ہاتھ جوڑے۔

پیچھے ہٹو۔۔ اور یہ ڈرامہ بند کرو۔۔ حناوے ایک دم اچھلی۔

مان جاو  نابات۔۔ اگر شاہ ویز بھائی  نے غلطی  سے بھی ڈائری پڑھ لی ناتو میں نہیں بچوں گی۔۔

ھدی نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا تھا ایک یہی موقع تھا انکے پاس شاہ ویز کے کمرے سے ڈائری اٹھانے کا۔

اچھا ٹھیک ہے کوشش کرتی ہوں۔۔” حناوے نے سوچتے ہوئی سے جواب دیا۔

یہ لو۔۔ یہ دوسری چابی ہے شاہ ویز بھائی  کے کمرے کی۔۔ انہوں نے اپنا  کمرہ لاک کیا ہوا ہے۔۔

ھدی نے فٹ سے چابی اسکی جانب بڑھائی ۔ جسے حناوے نے کچھ توقف کے بعد تھام لیا تھا اور پھر اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔

پیچھے ھدی اسکی کامیابی کی دعامانگ رہی تھی۔

شاہ ویز اور خضر شام میں ہی حیدر آباد سے واپس آئے تھے۔ شاہ ویزا اپنے کمرے سے منسلک اسٹڈی روم میں تھا۔ اسکی ایک اہم فائل نہیں مل رہی تھی۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد بھی نہیں ملی تو وہ سوچ میں پڑ گیا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اسکے جانے کے بعد اسکے کمرے کی کوئی  چیز آگے پیچھے ہوئی  ہو۔

یہ پہلی بار ہوا تھا۔

شاہ ویز نے غور سے اسٹڈی روم کو دیکھا اسے کچھ کتابیں اور شیلف میں رکھیں قیمتی چیزیں آگے پیچھے معلوم ہوئی  تھی۔

اسکی زیرک نظروں نے تبدیلی محسوس کی تھی۔

کچھ سوچتے ہوئے وہ کونے میں میز پر رکھے کمپیوٹر کی طرف بڑھا۔

کچھ دیر بعد اس نے ایک ریکارڈنگ پر کلک کیا تھا۔ وہ ایک شاطر انسان تھا۔ اس نے اپنے کمرے میں کیمرے نسب کٹی تھے۔

پچھلے چند دنوں کی ریکارڈنگ دیکھنا شروع کی لیکن کچھ نہیں ملا۔ پھر آج والی نکالی تو کچھ دیر ویڈیو چلنے کے بعد شاہ ویز کا منہ حیرت سے کھلا تھا۔ حناوے اسکے کمرے میں داخل ہوئی  تھی۔ اور پھر دبے قدموں ہر چیز کا جائزہ لینے لگ گئی ۔

دو جامد نقوش کے ساتھ ویڈیو ریکارڈنگ دیکھ رہا تھا۔

وہ کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ جب اسے کمرے میں کچھ نہیں ملا تو وہ اسٹڈی روم کی طرف بڑھی۔

اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔ یہاں بھی وہ ایک ایک چیز چیک کر رہی تھی۔

شاہ ویز حیرت سے اسکا اعتماد چیک کر رہا تھا۔ کتنی آسانی سے وہ اسکی چیزوں کو چھورہی تھی۔ کچھ بڑ بڑارہی تھی لیکن شاہ ویز کو سمجھ نہیں آئی  تھی۔

بالآخر اسے اپنی مطلوبہ چیز مل گئی  تھی وہ سرخ کور والی ڈائری۔۔

جو ھدی کی تھی۔ شاہ ویز کو یاد تھا اس نے ھدی سے چھینی تھی۔ شاہ ویز نے یہ دیکھ کر اپنا اٹکا ہو ا سانس بحال کیا تھا۔ یعنی وہ اسکے کمرے میں صرف ڈائری لینے آئی  تھی۔ لیکن شاہ ویز کو غصہ تو پھر بھی آیا تھا۔ ڈائری کے ساتھ وہی فائل رکھی تھی جسکی شاہ ویز کو اس وقت ضرورت تھی۔ ڈائری اٹھاتے وقت ہاتھ لگنے کےباعث وہ فائل نیچے گرگئی تھی جسے حناوے نے پاؤں کے ساتھ شیلف کے نیچے کھسکا دیا تھا۔

اب کی بار شاہ ویز کا دماغ گھوما۔ اسے حناوے سے اس درجہ بیوقوفی کی امید نہیں تھی۔

فائل نیچے گرگی  تھی تو اٹھا کر اوپر رکھ دیتی۔۔ ہاتھوں کو زحمت نہیں دی۔۔ بلکہ پاؤں سے ہی نیچے کھسکا دی۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ غصہ اسکی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔

حناوے۔

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ غصے سے چلایا تھا۔

مجھے اس کو ٹھے کی ہر لڑکی دیکھنی ہے۔۔“ وہ انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔

خیریت تو ہے چھوٹے ملک۔۔ آپ آج یہاں۔۔ اور یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“‘ نگار بیگم نے حیرت سے پوچھا۔ وہ پچھلے کافی دنوں سے کو ٹھے پر نہیں آیا تھا۔

جتنا کہا ہے اتنا کرو۔۔ وہ دھاڑا۔۔”

نگار بیگم نشے کی عادی ہے۔

جی اچھا۔۔ میں بلاتی ہوں۔۔”

وہ زیورات سے لدی سر جھکائے ایک طرف چلی گئی ۔۔ چھن چھن کی آواز دور تک گئی  تھی۔

تم نے مجھے پاگل بنا دیا ہے۔۔۔ امن ملک کو۔۔ اور میں تمہارا نام تک نہیں جانتا۔۔ وہ سرخ آنکھیں لئیے ٹہل رہا تھا۔۔ چہرے پر صدیوں کی تھکن واضح تھی۔ آنکھوں میں جانے کس کا چہرہ بسا تھا۔

کچھ دیر بعد کو ٹھے کی ساری لڑکیاں اسکے سامنے کھڑی تھیں۔۔ وہ شہر کے سارے ریڈ لائیٹ ایریاز چھان آیا تھا۔۔ مگر اسے وہ لڑکی کہیں نہیں ملی تھی جسے اس نے طوائف کے روپ میں دیکھا تھا۔

امن ملک نے غور سے ایک ایک لڑکی کو دیکھا۔۔ وہ ان میں نہیں تھی۔۔ پھر اس نے غصے سے کمرے میں میز پر رکھی ایک بیش قیمتی مورتی اٹھا کر نیچے ما ری

کون ہو تم ۔۔ آخر کون ہو تم ۔۔؟؟” وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ ساری لڑکیاں ڈر کر پیچھے ہوئیں۔۔ انکے چہرے پر خوف واضح تھا۔

حسینہ بیگم جو دل و جان سے امن پر فدا تھی اور جسے امن بھی پسند کرتا تھا وہ حیرت سے پھٹی آنکھیں لبے امن کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے امن کا یہ پاگل پن پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ تو اب تک امن کو اپنا مانتی آئی تھی۔

اور امن نے بھی کہا تھا جب تک کوئی اور اسکی زندگی میں نہیں آجاتی وہ حسینہ بیگم   کا تھا۔

اور آج اسے محسوس ہوا تھا امن ملک کی زندگی میں ایک نیا موڑ آگیا تھا جو حسینہ بیگم کیلے تو کیا خود

ا من ملک کیلے بھی خوشگوار نہیں تھا۔

میں ہوں حناوے_ رانا۔۔ میجر اغوان رانا کی بیٹی۔ اور یہ ہے ہمار ارانا ہاوس۔۔ وہ ہیرڈرائیرکا مائیک بنائے اسے ہاتھ میں پکڑے۔۔ میز پر کھڑی ہو کر رپورٹر کا فرئضہ سر انجام دے رہی تھی۔۔ سماب موبائل ہاتھ میں لئے اسکی ویڈیو بنارہی تھی۔

حناوے کہاں ہو تم باہر نکلو۔۔؟”

شاوویز کی غصے سے بھری آواز ابھری۔

او ووشٹ۔۔ دجال آگیا۔۔ ” سماب موبائل لے کر بیڈ کے نیچے گھسی۔۔ جبکہ حناوے کا ڈر کی وجہ سے میز پر سے پاؤں پھیلا۔۔ اور وہ ہیرڈرائی کے ساتھ دھڑام سے نیچے گری۔

حناوے کیا ہوا ؟؟ اسے اس طرح چیختے دیکھ کر شاہ ویز کے لمحہ بھر کیلے اوسان خطا ہو ے تھے۔

شاہ ویز بھائی کی میرا پاوں۔۔” حناوے نے روتے ہوئے بتایا تھا۔ اسکی سرخ آنکھیں اور آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ کر شاہ ویز کا غصہ کم ہوا تھا۔ اس نے کندھے سے پکڑ کر حناوے کو نیچے سے اٹھایا اور بیڈ پر بٹھایا۔

حناوے کے پاؤں میں درد  اٹھ رہی تھی۔ اسکی چیخوں کی آوازیں سن کر فاریہ بیگم ، امن ، منال اور ھدی سبھی وہاں پہنچ گئیے تھے۔

کیا ہوا حناوے۔۔؟” فاریہ بیگم اسے اس طرح روتے دیکھ کر گھبراگی تھیں۔

میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں مجھے لگتا ہے پاؤں میں موچ آگئی  ہے۔ ” شاہ ویز نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اسے ڈانٹنے آیا تھا لیکن اس آفت نے نئی مصیبت میں پھنسا دیا تھا۔

یہ لڑکی بھی نا۔۔ کبھی سکون سے نہیں رہ سکتی۔۔ ” ڈاکٹر کا نمبر ملاتے ہوئے شاہ ویز بری طرح سے بڑبڑا رہا تھا۔ جبکہ حناوے کی چیخوں سے بچنے کیلے اس نے کانوں پر ہاتھ رکھے تھے۔

حناوے کا پاؤں مڑنے کے باعث پاؤں میں موچ آگئی  تھی۔ ڈاکٹر نے پٹی کر دی تھی۔ لیکن اس سے سکون سے بیٹھا نہیں جاتا تھا۔ ذرا سا پاؤں ہلتا وہ چیخنا شروع کر دیتی تھی۔ اس نے پورے رانا ہاوس کو سر پر اٹھالیا تھا۔ شاہ ویز نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے اسے ڈانٹنے کا خیال دل سے نکال دیا تھا۔ وہ اسکی بے چین ہڈی کی وجہ سے اسکی موجود حالت پر بس افسوس ہی کر سکتا تھا۔

رخسار پھوپھو کچھ دیر پہلے اسکی عیادت کر کے آئی  تھیں۔

اللہ کا کرم ہو گیا بچی جس طرح گری تھی کہیں اور بھی چوٹ لگ سکتی تھی۔

انکے لہجے میں حناوے کیلیے فکر تھی۔

ارے امی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔ مری کی زمین نے اللہ کا شکر ادا کیا  ہو گا کہ کچھ دنوں کیلے حناوے کا بوجھ ہٹا۔ اب وہ کچھ دن بیڈ پر بیٹھ کر گزارے گی۔۔ خضر کا لہجہ مذاق اڑانے والا تھا۔

خضر بری بات بیٹا ۔۔ ایسے نہیں کہتے۔۔ مجھ سے اسکی حالت نہیں دیکھی  جاتی۔۔ جب درد ہوتا ہے تو  تو روتی ہے بہت۔۔

یہ لو۔۔ زمین کی جان چھوٹی تو فضا کی شامت آگئی کی اسکی چیخوں کی وجہ  سے۔۔ اس محترمہ کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔

خضر نے تاسف سے کہا تھا۔ البتہ وہ پر سکون تھا چار دنوں کیلے ہی سہی حناوے اسکے گھر نہیں آنے والی تھی۔ اور وہ کوئی  نیا ڈرامہ بھی نہیں کر سکتی تھی۔

!! . وہی اک شخص رہتا ہے عالم وجد مجھ میں محو ” !! . ادھر رقص اُدھر رقص یہاں عکس وہاں عکس

امن ملک کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں ڈھونڈے اسے۔ آنکھیں بند کرتا تھا تو وہ قاتل سراپے کے ساتھ چھم سے اسکے تصور میں اتر آتی تھی۔ خان سے اسکی حالت نہیں دیکھی جارہی تھی۔ وہ صبح نکلتا اور شہر شہر ڈھونڈتا اسے لیکن شام کو مایوس لوٹ آتا تھا۔ دو ماہ گزرگے تھے۔ لیکن وہ کہیں نہیں ملی تھی۔

مگر امن اسے ایک پل کیلے بھی نہیں بھول پایا تھا۔

اسے یقین تھا ایک نادن وہ اسے ضرور ڈھونڈ لے گا لیکن کب وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔

حیدر کی اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر پہلی پوسٹنگ جامشورو میں ہوئی تھی۔ آج اسے وہاں پہنچنا تھا۔ جامشور و صوبہ سندھ کا ضلع تھا جو حیدر آباد سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھا۔ کوٹری جامشورو کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز رکھتا تھا۔

حیدر کافی پر جوش تھا۔ اسکے پاس طاقت تھی۔ وہ اپنے کام پوری ایمانداری سے سر انجام دینے کا عہد کر کے آیا تھا۔

وہ حیدر آباد سے جامشور و جا رہا تھا۔ اور حیدر آباد میں دادی ماں یعنی قدسیہ بیگم نے بھی اسے ایمانداری کی تلقین کی تھی۔

رہنے کیلے اسے سرکاری بنگلہ ملا تھا۔ جہاں اسکا سامان پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔

خضر اور شاہ ویز کی طرح حیدر کی شخصیت میں بھی بلا کی بے نیازی تھی اور کچھ غرور اسے اپنے خاندانی اثر ورسوخ کی وجہ سے حاصل ہو چکا تھا۔ دھول کے مرغولوں کو پیچھے چھوڑتی اسکی گاڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اچانک سامنے بند راستہ دیکھ گاڑی جھٹکے سے رکی۔

کیا ہوا ڈرائیور ؟؟” حیدر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا۔

صاحب کچھ گاڑیاں اور لوگ کھڑے ہیں سڑک پر ۔۔” ڈرائیور نے تابعداری سے جواب دیا تھا۔

میں دیکھتا ہوں صاحب۔۔” ڈرائیور کہنے کے بعد گاڑی سے باہر نکلا تھا۔ کچھ دیر بعد ڈرائیور واپس آیا تھا۔

 صاحب وہ لوگ آپکے استقبال کیلے کھڑے ہیں۔۔ ” ڈرائیور نے خبر دی تھی۔ حیدر کو تھوڑی حیرت ہوئی تھی۔ وہ اپنی حیرت پر قابو پا تا باہر نکلا تھا۔ تو دیکھا تین گاڑیاں آگے پیچھے کھڑی تھیں۔ اور بہت سے گارڈز پستولیں تھامے کھڑے تھے۔

آئیے آئیے اے سی صاحب۔۔” حیدر کو دیکھ کر ایک پچاس سالہ شخص جو حلیہ سے کوئی  عام آدمی معلوم نہیں ہوتا تھا وہ حیدر کی طرف بڑھا۔ اسکے ہاتھ میں پھولوں کی مالا تھی۔

جو اس نے حیدر کو پہنائی  اور ہاتھ ملایا۔ حیدر خاموش نظروں سے ساری کاروائی  دیکھ رہا تھا۔

السلام علیکم سر ! میں عبد القیوم ہوں آپکا پی اے ۔۔” ایک سلجھی ہوئی  شخصیت کے مالک لڑکے نے تازہ پھولوں کا بکے حیدر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا جسے حیدر نے تھام لیا تھا۔

وہ سوالیہ نظروں سے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جس نے پھولوں کی مالا پہنائی  تھی۔

“سر یہ میر ممتاز عالم ہیں اس علاقہ کے سب سے بڑے زمیندار۔۔۔” قیوم کے جواب دینے پر حیدر نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ اسے اب ممتاز عالم کے یہاں ہونے کی وجہ سمجھ میں آگی تھی۔ علاقے میں نیا اے سی آیا تھا۔ تین گاڑیوں اور سینکڑوں گارڈز کی صحبت میں یہاں حیدر سے پہلے پہنچ کر وہ اپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا۔

ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔ چلیں اے سی صاحب میری گاڑی میں چلتے ہیں۔۔

میر ممتاز عالم نے مسکراتے ہوئے پیشکش کی تھی۔

معذرت کے ساتھ لیکن میں اپنی گاڑی میں جانا پسند کروں گا۔۔”

حیدر نے اپنی ناگواری پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔

، چلیں جی کوئی کی بات نہیں۔۔ ” میر ممتاز عالم اپنی سسکی پر قابو پاتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔ جبکہ قیوم کو حید ر نے اپنے گاڑی میں آنے کا اشارہ کیا تھا۔ سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے اور ایک پھر گاڑیاں دھول اڑاتی اپنی منزل کی جانب رواں تھیں۔

میرے یہاں آنے کی خبر ممتاز عالم کو کس نے دی؟؟” حیدر نے ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے قیوم سے پوچھا تھا۔

میں نہیں جانتا تھا سر لیکن یہ ممتاز عالم بڑی پہنچی ہوئی  شے ہے۔ ہر چیز پر  اسکی نظر ہوتی ہے۔۔ یقیناً یہ آپکا سات پشتوں کا شجرہ نسب بھی جانتا ہوگا۔۔

قیوم نے بتایا تھا۔

 ”ھم۔۔ ،،

حیدر نے گردن ہلانے پر اکتفا کیا تھا وہ کسی گہری سوچ کا شکار نظر آرہا تھا۔

نمل نوین کے ساتھ اپنے آفس میں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی کچھ ڈسکس کر رہی تھی۔ اسکا پورا دھیان  ہی  ملنے والے پروجیکٹ کی طرف تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی تھی۔

آجائیں۔۔ نمل نے انٹر کام پر چائی کا بولا تھا۔ اسی لگا ملازم وہی دینے آیا ہو گا۔ اس نے بنادر وازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

دستک دوبارہ ہوئی تو نمل نے چونک کر دیکھا جو آفس کے دروازے میں موجود کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی  تھی۔

“تم۔۔ ” وہ اب جھٹکے سے اٹھی۔

، تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟ ارحم کو دیکھ کر نمل کے پیشانی پر لکیریں ابھریں۔

 

 

 

Leave a Comment