Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

1 min read

Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Episodes # 8 to 11

حناوے از نور راجپوت

منال نے کمزور سے لہجے میں اپنا بچاؤ کرنا چاہا۔

جانتی ہوں میں سب ۔۔“ حناوے نے کہا۔ ”

اچھا چھوڑو تم لوگ۔۔ یہ دیکھو آج میں نے حناوے والے واقعے کے بارے میں فیس بک پیج پر پوسٹ کی تھی۔۔ لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہوگے ہیں۔۔

سماب نے لیپ ٹاپ حناوے کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو کتنی لائی کس ملی ہیں۔ ”

حناوے کو اسکی بات پر انتہا کا غصہ آیا تھا۔ بندہ اب سماب سے پوچھے کہ جنگل میں جو بھی ہوا یہ پوسٹ پیج پر کرنے والی تھی کیا۔۔؟

مگر سماب بھی ناجب تک ساری کر تو تیں اپنے فینز کو نہیں بتادیتی تھی اسے کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔۔

ایچ رانا سے ایک دنیا ملنا چاہتی ہے۔۔ ” ھدی نے لیپ ٹاپ سماب کے ہاتھ سے لیتے ہو کہا۔
مر جاؤ تم ڈوب کر سماب۔۔ دن میں تم کتنی بار ٹھونستی ہو یہ بھی اپنے فینز  کو بتایا کرو۔۔

یہ صرف تمہاری وجہ سے ہے سماب۔۔ لوگ مجھے پتا نہیں مجھے کیا سمجھتے ہیں۔۔ حناوے سماب کو گھور رہی تھی۔

ارے۔۔ تم میرا شکریہ ادا کرو۔۔ میری وجہ سے لوگ تمہیں جانتے  ہیں۔۔

حناوے بد معاش کو۔۔ سماب نے آخر میں اپنی ہنسی چھپائی کی تھی۔

ہاں میں بد معاش اور تینوں میرے ساتھ کی گنڈیاں۔۔” وہ کب پیچھے ہٹنے والی تھی۔

تینوں نے ایک جھٹکے سے حناوے کو دیکھا۔۔

کچھ پل خاموشی چھائی کی رہی اور پھر اسکے بعد کمرے میں چاروں کے قہقہوں کی آواز گونج گئی کی تھی۔
—————————————

تم یہاں کیا کر رہی ہو اس وقت ؟؟

شاوویز حسن نے اپنے سامنے کھڑی نمل سے پوچھا تھا

جو اپنی گھبراہٹ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔

میں آفس سے آرہی ہوں۔۔

” نمل نے نظریں چراتے ہوئی سے کہا تھا۔ اسکا جواب سن کر شاہ ویز کے چہرے کے تاثرات تن گئے تھے۔

اپنی نہیں تو کم از کم ہمارے خاندان کی عزت کا خیال کر لو۔۔

رانا خاندان کی  لڑکیاں اتنی رات کو یوں اکیلے آوارہ گردی نہیں کرتیں۔۔ وہ بے رحم ہوا تھا۔

سردیوں کی آمد آمد تھی۔ وہ سفید رنگ کے کلف لگے شلوار قمیض میں کندھوں پر سیاہ چادر پھیلائی سے غضب ڈھا رہا تھا۔

لیکن اسکی سحر انگیز شخصیت نمل کو متاثر نہیں کر پاتی تھی وجہ اسکا بات کرنے کا لہجہ تھا۔

وہ خیام رانا کے سب سے بڑے بیٹے حسن رانا کے سب سے بڑے سپوت ہونے کا شرف حاصل رکھتا تھا۔ وہ سیاست میں دلچسپی رکھتا تھا اور انکے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ اسکا انداز روایتی سیاسی وڈیروں جیسا تھا۔ رانا ہاوس میں سب اس سے ڈرتے تھے۔

چلو اب یہاں سے۔۔۔

” اس سے پہلے نمل کچھ کہتی وہ گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اسے یوں رات کے وقت سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

نمل اس بے رحم وڈیرے کو جاتا دیکھ رہی تھی جسے بد قسمتی سے اسکی قسمت میں بچپن سے لکھ دیا گیا تھا۔

چلو اب یاں تمہیں گود میں اٹھانا پڑے گا ؟؟

اسی وہیں پر کھڑا دیکھ کر شاہ ویز گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئی سے بولا۔

اسکی بات سن کر نمل سٹپٹائی کی، ایک گہر اسانس لیا اور پھر قدم گاڑی کی طرف بڑھادی ئیے۔

اسکے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد شاہ ویز نے گاڑی آگے بڑھادی تھی۔

نمل اسکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔

وہ رخ گاڑی کے شیشے کی طرف کئے بیٹھی تھی۔ ٹھنڈی ہوا اسے سکون بخش رہی تھی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ گھر سے حیدر آباد جانے کی اجازت کیسے لی جائی –

آخر تم یہ سب چھوڑ کیوں نہیں دیتی ؟؟” شاہ ویز کی بھاری، گھمبیر آواز گاڑی میں گونجی تھی۔

کیا چھوڑ دوں ؟؟

نمل نے بنا اسکی طرف دیکھے پوچھا۔

یہی جاب کرنا۔۔

یہ سب مجھے نہیں پسند ۔۔

آخر کس چیز کی کمی ہے رانا ہاؤس میں جو تم چند ہزار کی نوکری کیلے رات گئی ہے تک دھکے کھاتی ہو۔۔

میں پیسوں کیلے نہیں کرتی یہ سب۔۔ لوگوں کی خدمت کرنا مجھے  اچھا لگتا ہے۔۔

!! لیکن میں کہہ رہا ہوں نا چھوڑ دو یہ سب ۔۔

” وہ حکمیہ انداز میں بولا تھا۔ دونوں کو اپنے رشتے کی نسبت بچپن سے معلوم تھی اور اسی نسبت کی وجہ سے شاہ ویز نمل پر زیادہ حق جتاتا تھا۔

میں کہتی ہوں آپ سیاست چھوڑ دیں۔۔ کیا آپ چھوڑ دینگے ؟؟

اب کی بار وہ رخ شاہ ویز کی جانب کئےگہری نظریں اسکے چہرے پر جمائی پوچھ رہی تھی۔

تمہار ا دماغ خراب ہے۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو ؟؟

شاہ ویز کا دماغ بھک سے اڑا۔

پہلے ہی وہ خیام رانا کے الیکشن ہارنے کی وجہ سے اچھا خاصا پریشان تھا اور نمل کی حرکتیں اور اسکی باتیں عمل کو سیاست نہیں پسند تھی۔

وہ امن پسند لڑکی تھی جو ایک پر سکون زندگی گزارنا چاہتی تھی لیکن شاہ ویز کے ہوتے ہوئی سے ایسا ممکن نہیں تھا۔

جی بالکل میر ادماغ خراب نہیں ہے اس لیے میں نہیں چھوڑ سکتی ۔۔” اور آپ مجھے مجبور نہیں کر سکتے کیونکہ دادا جان مجھے اسکی اجازت دے چکے ہیں۔۔

نمل پختہ لہجے میں کہا۔

شاہ ویز کے چہرے پر واضح ناگواری ابھری تھی۔

ٹھیک ہے پھر کچھ دن ہیں تمہارے پاس جی لو اپنی مرضی سے پھر میں دیکھتا ہوں تم کس کی اجازت سے چلتی ہو۔۔

وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئیے بولا تھا۔

اس سے پہلے نمل کچھ کہتی گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔

وہ لوگ را نا ہاؤس کے سامنے تھے۔

کچھ ہی پلوں میں گیٹ کھلا تھا اور گاڑی گھر کے اندر داخل ہو گی  تھی۔

نمل نے خاموش رہنے میں عافیت جانی تھی۔

وہ جانتی تھی اگر شاہ ویز اپنی ضد پر آجاتا تو یقینا اگلی صبح اسکے جملہ حقوق اپنے نام لکھوا کر گھر میں قید کر دیتا۔

اور وہ فی الوقت ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔

————————————————

ملک حویلی میں ارحم ملک کے کچھ دوست آئی سے ہوئے تھے۔

دن میں وہ لوگ شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ کچھ دیر پہلے مہمان خانہ سے انہیں رخصت کرنے کے بعد وہ جیسے ہی حویلی کی رہائش گاہ میں داخل ہوا اسے خانم بیگم لاؤنج کے صوفے پر بیٹھی نظر آئی ہیں۔

السلام علیکم خانم بی۔” ارحم نے ادب سے انہیں سلام کیا تھا۔

و علیکم السلام۔۔” خانم بیگم نے، جنہیں ملک خاندان میں سب خانم بی کہتے تھے، سر ہلا کر جواب دیا۔

چلے گئے تمہارے دوست ؟؟”

وہ پوچھ رہی تھیں۔

“جی۔۔ “

ارحم نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔ خانم بی نے ہولے سے اثبات میں سر کو ہلایا۔

ملک خاندان کا یہ واحد لڑکا تھا جو انہیں سب سے زیادہ عزت دیتا تھا ویسے تو سب ہی خانم بی کی عزت کرتے تھے۔

انکی شخصیت ہی ایسی تھی کہ ہر شخص ادب کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔

لیکن ارحم وہ اپنی اچھی تربیت کے باعث کچھ زیادہ ہی اچھا تھا۔

تم نے پوچھا تمہاری ماں کب واپس آرہی ہے حویلی۔۔”

انکی بات سن کر ارحم کے اپنے کمرے کی جانب بڑھتے قدم رک گئی ہے۔

میری ان سے بات ہوئی کی ہے وہ کچھ دنوں تک آجائی میں گی ارحم نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا تھا۔

چھوڑ NGO تمہیں اب اپنی ماں کو سمجھانا چا ہے کہ  سوشل ورک کر کے اسے کیا مل جائیے گا اور کیا ملا ہے اتنے سالوں سے وہ یہ سب کر رہی ہے

  خانم بی کے لہجے میں ارحم کی ماں کیلے ناپسندیدگی واضح تھی۔ ارحم کی کشادہ پیشانی پر لکیریں ابھریں۔

یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں جنکے لیے وہ کام کر رہی ہیں اور انکا  لوگوں کی خدمت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے

آج تمہیں ماں کا یہ کام پسند ہے کل کو تم اپنے لئے ایسی ہی لڑکی ڈھونڈ  لوگے جو سوشل ورک کرتی ہو

پتا ہے لوگ کتنی باتیں بناتے ہیں تمہاری !! ماں کا گاؤں گاؤں پھر نا ہمیں شرمندگی میں مبتلا کرتا ہے

اس میں شرمندگی والی کیا بات ہے خانم بی۔۔

بلکہ میری ماں کے سوشل  ورک سے سیاسی طور پر آپ لوگوں کو فائدہ ہی ہوا ہے_

کوئی کی نقصان نہیں اور ہاں اگر کل کو میری بیوی یہ کام کرنا چاہے تو مجھے کوئی کی  اعتراض نہیں ہو گا

وہ سنجیدہ سے لہجے میں کہتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ خانم بی کا جواب سننے کیلے رکا نہیں تھا۔

خانم بی کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔ بیشک وہ ٹھیک کہہ کر گیا تھا۔

بہرام ملک کو اس کام سے کافی فائدہ ہوا تھا۔
لیکن خانم بی اس عورت کو مطمئن اور پر سکون دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔

وجہ انکی ذلیحہ ملک (ارحم کی ماں ) سے ذات دشمنی تھی جو برسوں سے چلی آرہی تھی۔

———————————————
آیت وصل پڑھی اور پلا پانی

اب محبت میں خسارہ نہیں ہونے والا

تھوڑا تھوڑا ہی میسر رہے

کافی ھے مجھے وہ شخص

میر اسارے کا سارا نہیں ہونے والا

رات کی خاموشی میں گھنگھروؤں کی چھنکار نے فضا میں عجیب سا ارتعاش پیدا کیا ہوا تھا۔

وہ حسن کہ ملکہ مہندی لگے پاؤں اور ہاتھوں کو سازندوں کے بجائی سے گئے موسیقی کے آلات پر ،

جن سے دھنیں ابھر رہی تھیں ہلا کر خوبصورت رقص کر رہی تھی

واہ واہ۔۔

اور ہائے لوٹ لیا کی آواز میں چاروں طرف سے ابھر رہی تھیں۔

امن ملک اپنے دوستوں کے ساتھ نگار بیگم کے کوٹھے پر موجود تھا
جو شہر کامشہور کو ٹھا کہلاتا تھا۔

ہاتھ میں جلتے مہنگے سگار کو ہونٹوں سے لگاتے اور دھواں فضا میں اب اچھالتے وہ خمار آلود نظروں سے رقص کرتی حسینہ کو دیکھ رہا تھا۔

اسے رقص کرتی لڑکیاں بہت پسند تھیں۔ اور خا ص طور پر حسینہ ۔۔

وہ رقص میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی

امن ملک اسے پسند کرتا تھا اور حسنیہ ۔۔

وہ تو دل و جان سے امن ملک پر مر مٹی تھی

امن ہفتے میں دو بار صرف حسینہ کار قص دیکھنے آتا تھا
نگار بیگم اس سے منہ مانگی قیمت وصول کرتی تھیں۔

کچھ دیر بعد رقص ختم ہوا تو وہ حسنیہ کے ساتھ ہی اسکے کمرے میں آگیا تھا۔

وہ پچیس سالاسڑیل جوان تھا۔

شخصیت سحر انگیز تھی جسکی وجہ قیمتی لباس

تھا اور اس سے بھی قیمتی خوشبو جو وہ لگاتا تھا

پاس سے گزرنے والے کو شخص کو بھی پاگل کر دیتی تھی۔

کیسا جادو کیا آپ نے ہم پر ملک صاحب ہم آپکے علاوہ کسی اور کو دیکھ ہی نہیں پاتے وہ امن کے سینے پر سر ٹکائی سے اک ادا سے کہہ رہی تھی۔

جادو تو تم بھی کرتی ہو حسینہ بیگم ایسا جادو کہ امن ملک کو تمہارا دیکھنے کیلے آنا ہی پڑتا ہے

آپ پر ہمار ا سب کچھ قربان ملک صاحب اور آپ رقص کی بات کرتےہیں

اسکی بات سن کر وہ ہولے سے مسکرا دیا تھا۔

جانتا تھا وہ ایسی باتیں کرنا ان طوائفوں کی رگ رگ میں شامل تھا۔

جب تک میں ہوں کوئی کی اور نہیں آئے گا اور ناہی تم کسی اور دیکھ پاو گی۔۔

وہ مغرور لہجے میں بول رہا تھا۔

اور آپ کب تک رہیں گے ملک صاحب۔۔۔؟؟

وہ اب مہندی سے سجی ہتھیلی کو ٹھوڑی کے نیچے جمائی سے آنکھوں میں بے چینی لے پوچھ رہی تھی۔

کمرے میں ونڈ چارم کی چھن چھن گونج رہی تھی۔

جب تک میر ادل نہیں بھر جاتا۔۔ وہ صاف گو تھا۔

ہم آپکا دل کبھی بھر نے نہیں دینگے ملک صاحب۔۔ حسینہ کا دل ہلکا سا کا نپا تھا لیکن وہ خود کو سنبھال کر اک ادا سے بولی تھی۔

دیکھتے ہیں۔۔۔

لیکن ابھی تک ایسی عورت نہیں آئی میری زندگی میں جو امن ملک کو باندھ کر رکھ سکے۔۔

وہ بھی مسکرادیا۔

اسکی مسکراہٹ پر حسینہ کو اپنی جان ہوا ہوتے محسوس ہوئی کی تھی۔

گہری مونچھوں تلے دبے عنابی لب اور خمار آلود آنکھیں_

حسینہ امن ملک کی وجاہت پر اپنا آپ مکمل طور پر ہار گی  تھی۔

کل کی کس کو خبر تھی حسینہ کیلے اتنا ہی کافی تھا وہ اس وقت اسکے پاس تھا صرف اسکا تھا۔
————————————————————–

منحوسوں نے مجھے بھیج دیا چائے بنانے

خود پتا نہیں میرے پیچھے کیا پلاننگ کر رہی ہونگی۔۔ منال ٹرے میں چاہے کے کپ رکھتے ہوئے بڑ بڑائی تھی۔ آج چائے بنانے کی باری اسکی تھی۔

رات کو حناوے کے کمرے میں انکی محفل لگتی تھی اور پھر دیر تک جاری رہتی۔

صبح کمرے کا حشر نشر برا ہوا ہوتا تھا۔ وہ چاروں دنیا جہاں کے موضوعات پر باتیں کرتیں-
سوشل میڈیا کو کھنگالتیں–

نت نئی  کپڑوں کے ڈیزائن دیکھتیں اور پھر آنلاین شاپنگ کرتیں اکثر شرطیں لگائی کی جاتی تھیں۔۔۔

الٹے کام کرنے کی شروعات یہیں سے ہوتی تھی۔

جیسے ہی منال ٹرے اٹھا کر کچن سے باہر نکلی تو لاؤنج کا درواز کھلا-

اور شاہ ویز اور نمل آگے پیچھے گھر میں داخل ہوئی ہے۔

دونوں کے چہروں پر سر دو جامد تاثرات تھے۔

منال جانتی تھی جب بھی وہ ساتھ ہوتے تھے ان دونوں کے درمیان کچھ ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔

لیٹ ہوگئی کی آج آپ آپی ۔۔”

منال نے نمل سے پوچھا جو اس سے تین سال بڑی تھی۔

ہاں بس کام زیادہ تھا۔۔ ” نمل جواب دیتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی

جبکہ شاہ ویز فون پر آنے والی کال سن رہا تھا۔ منال غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ جائے یا نہیں۔

ٹرے کو اس نے صوفوں کے درمیان پڑی میز پر رکھا اور شاہ ویز کے فون بند کرنے کا انتظار کرنے لگی۔

کچھ سیکنڈز بعد فون کال بند کر کے
شاہ ویز نے ابر واچکا کر منال کو دیکھا۔

، تم یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔؟” وہ اب پوچھ رہا تھا۔

وہ آپ۔۔ کھانا کھائے گے ۔۔؟؟ منال نے خشک ہو ئے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے پوچھا۔

نہیں۔۔ اور یہ چائے لے جاؤ ٹھنڈی ہو جائے گی۔۔” وہ سنجیدہ لہجے میں آگے بڑھ گیا تھا۔

شاہ ویز۔۔۔ بھائی ی۔۔ آپ چائے لے لیں پھر ۔۔ ” منال نے پیچھے سے آواز دی تھی۔ جانے اسے شاہ ویز کی اتنی فکر کیوں ہو رہی تھی۔

شاہ ویز نے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا جو نروس سی کھڑی تھی۔

مجھے کچھ چاہے ہو گا تو میں ملازمہ سے کہہ دو نگا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بچے۔۔

وہ تھوڑا نرم پڑا تھا۔

منال اس سے دس سال چھوٹی تھی۔ شاہ ویز کیلے وہ بچی ہی تھی لیکن اس وقت وہ اسکی فکر کر رہی تھی تو شاہ ویز کو اسے ڈانٹنا اچھا نہیں لگا۔

وہ اسکے لئیے بالکل ھدی ( شاہ ویز کی بہن ) جیسی ہی تھی۔

وہ اب کی بار کہہ کر رکا نہیں تھا۔ اور منال کو اسکے نرم لہجے میں بات کرنا اچھا لگا تھا۔

وہ اسے کمرے تک جاتا دیکھ رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا۔

زوال دوری، کمال جینا محال سہنا، و بال کہنا”

وه تلخ لمحے ، زہر لہو میں تریاق چاہیں تیر اتصور
——————————————–
دیکھو سماب تم نے کہا تھا کہ اگر تم پاس ہو جاؤ گی تو ہم سب کو ٹریٹ دو گی۔۔

وہ چاروں سے سفید یونیفارم میں ملبوس تھیں۔

بڑی سی پر اڈو سیاہ رنگ کی گاڑی تیزی سے سڑک بھاگ رہی تھی۔

ہاں تم نے کہا تھا۔۔ اب تم پاس ہو ہی گی ہو تو ٹریٹ بنتی ہے۔۔ ” حناوے نے بھی ھدی اور منال کا ساتھ دیا۔ ان چاروں کا تھر ڈ ئیرکا رزلٹ اچھا آیا تھا۔

حناوے پڑھائی کی میں اچھی تھی۔ وہ تھوڑا بہت پڑھ کر بھی اچھے گریڈز لے آتی تھی لیکن باقی تینوں کو تھوڑی محنت کرنی پڑتی تھی۔

ھدی اور منال دونوں کی سپلی آئی تھی۔ لیکن سماب خلاف توقع پاس ہوگئی کی تھی اور اب وہ تینوں سماب کو اسکی کہی گئی بات یاد دلا رہی تھیں۔

انکی بات سن کر سماب کے چہرے پر ناگواری ابھری۔

ہاں تو میں اپنی محنت سے پاس ہوئی ہوں۔۔” سماب نے گردن اکڑا کر کہا۔

تم محنت سے پاس ہوئی کی ہو یا نقل کر کے جو بھی ہے ٹریٹ تو دینی پڑے گی۔۔

ڈرائیور انکل یہ کونے والے ریسٹورینٹ کے سامنے گاڑی روک دیں۔۔ حناوے نے کریم بخش کو کہا جو رانا ہاوس کا پرانا اور قابل اعتبار ڈرائیور تھا، ہوٹل کے سامنے گاڑی روکنے کا کہا۔

نہیں بیٹار انا صاحب کا حکم ہے گاڑی نہیں روکنی کہیں بھی اور نا ہی آپ  لوگوں کو گاڑی سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔۔

بخش با با پلیز ۔۔۔ دیکھیں ہم کچھ غلط نہیں کرینگے اور جلدی واپس  آجاے گے۔۔ حناوے نے منت کی تھی۔ سماب خاموش بیٹھی تھی وہ دل میں دعا کر رہی تھی گاڑی آج نہ رکے اور اسکے پیسے بچ جائی ہیں۔

لیکن حناوے کے ہوتے ہوئی سے یہ ممکن نہیں تھا۔

بالآخر دو تین منٹ منتیں کرنے کے بعد ڈرائیور کو ان پر ترس آگیا اور اس نے گاڑی ہوٹل کے سامنے روکی۔ سب سے پہلے سفید یونیفارم میں حناوے باہر نکلی تھی۔

نکل آو موٹی بھینس۔۔ باقی کے پیسوں سے کھانا ہو تو فٹافٹ نکلتی ہو گاڑی  سے۔۔ اب کیا پھنس گئی ہو ۔۔ ھدی اور منال نے سماب کو کھینچ کر گاڑی سے نکالا تھا۔ وہ براسے منہ بناتی انکے پیچھے ہی ہوٹل میں داخل ہوئی کی تھی۔

موسم خوشگوار تھا۔ اور حناوے ایسی آو ٹنگ کیلے ہمیشہ تیار رہتی تھی۔

اپنی چادروں کو اچھے سے درست کرتے وہ ایک ٹیبل کی طرف بڑھی تھیں۔ ڈر بھی تھا کہ کہیں کوئی یا اپنا دیکھ نہ لے اور سب سے زیادہ ڈر شاہ ویز کا تھا۔

تھوڑی دیر بعد آڈر لینے آیا تو سماب کی اتری ہوئی کی شکل دیکھ کر حناوے نے ہاتھ ہلکار کھا۔

وہ چاروں مکمل طور پر کھانے میں مگن تھیں۔ کریم بخش باہر دروازے کے پاس کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔

پانچ منٹ گزرے تھے کہ ھدی کو تھوڑا عجیب سا محسوس ہوا۔

انکے سامنے والی میز پر لڑکوں کا ایک گروپ بیٹھا تھا جنکی نظریں ان چاروں پر تھیں۔

لگتا ہے کالج سے کلاس بنگ کر کے آئی ہیں۔۔ ” ایک لڑکے نے ھدی کو دیکھتے ہوئی سے کہا تھا۔

حناوے کی انکی طرف پشت تھی۔

“ ویسے آئٹم کمال کی ہیں۔۔۔”

سماب کو دیکھتے ہوئی سے ہولے سے سیٹی بجائی کی گئی کی تھی۔

یار اتنے بڑے ریسٹورینٹ میں ایسے چھچھورے لوگ کہاں سے آجاتے ہیں۔۔؟؟

منال کو کوفت ہوئی تھی۔ ان دونوں میزوں کے درمیان فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔

وہ لڑکے کیا باتیں کر رہے تھے ان چاروں کو سنائی کی تو نہیں دے رہی تھیں لیکن انکے دیکھنے اور بیہودہ اشاروں سے وہ کافی کچھ سمجھ گئی تھیں۔

ادھر مت دیکھو یار۔۔ تمہیں نہیں پتا ان کا تعلق کس خاندان سے ہے۔۔

ایک لڑکے نے اپنے دوستوں کو باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔

جس بھی خاندان سے ہیں ہمیں کیا لینا۔۔۔ مجھے تو بس ہیلو ہائی سے کرنی  ہے۔۔

وہ لڑکا کافی چھچھورا تھا۔

نہ کر یار ان میں سے ایک ایس پی خضر حیات کی منگیتر ہے اور باقی  تینوں اسکی ماموں کی بیٹیاں _ رانا ہاؤس سے تعلق ہے انکا۔۔

میں کافی اچھے سے جانتا ہوں۔۔ اگر یہاں کوئی کی تماشہ ہوانا تو ایس پی چھوڑے گا نہیں ۔۔۔

وہ لڑکا کافی ڈرا ہو الگ رہا تھا۔۔ شاید یہ ڈر ایس پی خضر حیات کا تھا۔

واہ یار۔۔ بڑی معلومات رکھی ہیں تم نے۔۔
یہ بتا ایس پی منگیتر کو نسی  ہے۔۔ پہلے اس سے حال چال پوچھتا ہوں۔۔

وہ لڑکا کہتے ہوئی سے اپنی کرسی سے اٹھا۔

مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا حنا وے۔۔ وہ لڑکا ہماری طرف ہی آرہا  ہے۔۔ منال نے جھک کر حناوے کے کان میں سر گوشی کی۔۔

جس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔

اب وہ لڑ کا متوازن قدم اٹھاتا انکی میز کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یا اللہ یہ تو ادھر ہی آرہا ہے۔ اگر یہاں کچھ ہو گیا تو ہمارا پکڑا جانا لازمی ہے اور پھر ہماری خیر نہیں ۔۔

ھدی کے ذہن میں غصے سے بھرے شاہ ویز کا چہرہ ابھرا۔

اسکی بات پر حناوے نے اپنی پلیٹ سے نظریں اٹھائی میں اور سامنے دیوار میں لگے آئینے کو دیکھا جس میں اسکا عکس ابھر رہا تھا۔ اور پیچھے اس لڑکے کا جو انکی طرف بڑھ رہا تھا۔

پیسے نکالو جلدی سے ۔۔حناوے نے سماب سے کہا جو پیسوں کے نام پر ہو نک بنی اسے دیکھ رہی تھی۔

تم سے کہہ رہی ہوں پندرہ سو ہے بس۔۔ بل ادا کرنا ہے۔۔ حناوے نے سماب کے اس طرح دیکھنے پر دوبارہ کہا۔

وہ لڑکا اب انکی میز کے کافی قریب پہنچ چکا تھا۔
وہ عین حناوے کے پیچھے تھا۔
حناوے نے آئینے میں دیکھا۔ اسکے ہاتھ میں بھاری سٹیل کا کانٹا ( چمچ) تھا۔

جب چار پانچ قدموں کی دوری پر تھا تو حناوے نے
ہاتھ اٹھایا۔

غور سے آئینے میں دیکھتے ہوئی سے چمچ پیچھے کی جانب پوری قوت سے اچھالا۔ نشانہ چوکا نہیں تھا۔

چمچ لڑکے کی پیشانی پر لگا تھا۔ وہ کراہ کر رہ گیا تھا۔

حناوے کی اس حرکت پر ان تینوں کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔

پ۔۔ پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔۔ ”

سماب نے اٹکتے ہوئی سے بتایا۔

حناوے نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اپنے بیگ سے پیسے نکال کر میز پر رکھے۔

وہ چاروں اٹھ کھڑی ہوئی کی تھیں۔ وہ لڑکا ابھی تک کراہ رہا تھا۔ اسکی پیشانی سے خون نکل آیا تھا۔

اسکے دوست اسکی جانب لپکے تھے۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا تھا۔

نکلواب یہاں سے ۔۔” حناوے باہر کی جانب بھاگی تھی۔ اور اسکے پیچھے وہ تینوں بھی۔۔

یہ تم نے کیا کیا حناوے۔۔ اگر کسی کو پتا چل گیا تو۔۔؟؟ منال کے چہرے کی رنگت پھیکی چکی تھی۔

نکلواب یہاں سے۔۔ حناوے باہر کی جانب بھاگی تھی۔ اور اسکے پیچھے وہ تینوں بھی۔۔

یہ تم نے کیا کیا حناوے۔۔ اگر کسی کو پتا چل گیا تو ۔۔؟؟” منال کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑ چکی تھی۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوٹل سے باہر نکلیں اور بھاگنے کے انداز میں کار کی طرف بڑھیں تھی۔

ڈرائیور نے چونک کر انہیں دیکھا اور پھر وہ بھی سر جھٹک کر گاڑی کی طرف بڑھ چکا تھا۔

گاڑی ایک بار پھر سے تیز رفتاری کے ساتھ پتھریلی سڑک پر گھر کی جانب رواں تھی۔
——————————————————–

میرے ڈیڈ کو کال ملاؤ انکا یہ ریسٹورینٹ ابھی بند ہو جائیے گا۔۔” اس نے اپنے دوست سے کہا تھا۔

ان چاروں کے جانے کے بعد عادل شبیر جسکی پیشانی پر کانٹا لگا تھا اس نے پورے ریسٹورینٹ کو سر پر اٹھا لیا تھا۔

سر پلیز۔۔ ہم آپ سے معافی مانگتے ہیں جس نے بھی یہ حرکت کی ہے وہ کیمرہ سے  بچے گا نہیں بس آپ پر سکون ہو جائے
ہم ابھی ریکار ڈ نگ چیک کر لیتے ہیں لیکن اس سے پہلے آپ پر سکون  ہو جائیے ۔۔۔

ہوٹل کے مینیجر کے ہاتھ پاوں پھول چکے تھے۔ وہ عادل شبیر اور اسکے خاندان سے باخوبی واقف تھا۔

اور شبیر صاحب واقعی یہ ہوٹل ہمیشہ کیلے بند کروا سکتے تھے۔

پر سکون۔۔ مائی فٹ۔۔ پولیس کو کال کی جائے۔۔” عادل شبیر کو غصہ اس بات کا تھا ایک تو وہ ان لڑکیوں کو ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا تھا۔

اور دوسرا وہ لڑکی اسکو چوٹ پہنچا کر چلی گئی  تھی اور جب تک اسکا دوست باہر گیا انکے پیچھے وہ چاروں غائب ہو گی تھیں۔

مینیجر مرتا کیا نہیں کرتا۔۔ اس نے پولیس کو کال کر دی تھی تا کہ وہ آئیں اور عادل شبیر پر حملہ کرنے والے کو ڈھونڈ سکیں۔

ہلکی ہلکی بوندا باندی نے مری کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تیز رفتار جیپ ایک دم پولیس اسٹیشن کے سامنے آکر رکی تھی۔

وہ پولیس کی وردی میں جیپ سے باہر نکلا تھا۔ وردی کے اوپر پہنی جیکٹ بارش کی وجہ سے کچھ کچھ بھیگ چکی تھی۔

خضر نے قدم اندر کی جانب بڑھائے ۔

سلام سر۔

وردی میں ملبوس ایس پی خضر حیات کو سپاہیوں نے سلیوٹ کیا تھا۔ وہ سب کو جواب دیتا ہوا اپنے آفس روم کی جانب بڑھا تھا۔

جیکٹ اس نے اتار کر کرسی کے پیچھے لٹکائی  اور آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔

پانچ منٹ بعد انسپکٹر حمزہ اسکے کمرے میں موجود تھا۔

سر شبیر صاحب کا کہنا ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر انکے بیٹے پر حملہ کیا  تھا _ عادل شبیر کی پیشانی پر دو ٹانکے لگے ہیں_ زخم کافی گہرالگا تھا_

ہوٹل کے کیمروں سے جو ہمیں ریکارڈنگ ملی ہے
وہ یہ ہے سر۔۔

حمزہ نے کہتے ہوئی سے لیپ ٹاپ کا رخ خضر کے سامنے کیا تھا جو غور سے ویڈیو دیکھ رہا تھا۔

اور پھر یک لخت اسکے چہرے کے تاثرات بدلے

حناوے، ھدی، منال اور سماب چاروں کالج کے یونیفارم میں ہوٹل میں موجود تھیں۔

عادل شبیر کے انکی میز کی جانب بڑھنے اور پھر حناوے کے کانٹا مارنے کو وہ بخوبی دیکھ رہا تھا۔

لیکن حناوے کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ وہ چادر میں تھی اور کیمرہ بالکل اسکے سر کے اوپر لگا تھا۔

البتہ سماب اور منال نظر آرہی تھیں۔ لیکن وہ حناوے کو وہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔

سر ۔۔

اب کیا کرنا چائیے؟؟

انسپکٹر حمزہ اور خضر کی دوستی بھی تھی۔

وہ دونوں ساتھ پڑھے اور حمزہ رانا ہاؤس کے ہر فرد سے واقف تھا۔ اس نے بھی ان چاروں کو پہچان لیا تھا۔

خضر کے چہرے پر غصہ واضح جھلک رہا تھا۔

ویسے ویڈیو میں یہ بھی نظر آرہا ہے لڑکوں کا یہ گروپ دوسری میز پر بیٹھی  لڑکیوں  کو تنگ کر رہا تھا ۔ یہ لوگ اشارے کر رہے تھے_

اور عادل شبیر یہ بہت ہی لوفر اور آوارہ قسم کا لڑکا ہے_

یہ ضرور انکی میز کی طرف کسی برے ارادے سے گیا تھا

تب ہی آپکی میجر اغوان رانا کی بیٹی نے وہ کانٹا پیچھے کی جانب اچھال کر اسے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن نشانہ کچھ !! زیادہ ہی پکا تھا

جو عادل شبیر کو گہر از خم دے گیا انسپکٹر حمزہ نے بھی حناوے کو پہچان لیا تھا شاید تبھی وہ واضح الفاظ میں میجر اغوان را نا یعنی حناوے کے بابا کا نام لے رہا تھا۔ خضر گہری سوچ کا شکار نظر آرہا تھا۔

سر عادل شبیر نے اس حادثے کو اپنی انا کا مسلہ بنا لیا ہے۔۔ اسکا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کو ڈھونڈا جائے خاص طور پر اس لڑکی کو اور پھر اسکے سامنے  لایا جائیے_

مقصد آپ جانتے ہیں وہ کیا کرے گا

انسپکٹر حمزہ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں خضر کو عادل شبیر کے ارادے سے آگاہ کیا تھا۔

ایس پی خضر حیات کے جبڑے بھنچ گئیے تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حناوے کی بیوقوفی کی وجہ سے رانا خاندان کو کسی پریشانی کا سامنا کرنے پڑے۔

اور جو بھی وہ اسکی کزن تھی اور کسی بھی حال میں عادل شبیر کو اس تک نہیں پہنچنے دینا چاہتا تھا۔

پتا کر و عادل شبیر کے نام پر کس کس پولی اسٹیشن میں کتنے کیس درج  ہوئے ہیں۔۔

انسپکٹر حمزہ اسکی بات کی گہرائی سمجھ کر مسکرا دیا تھا اور پھر لیپ ٹاپ اٹھا کر باہر نکل گیا۔

جبکہ خضر نے فون اٹھا کر رانا ہاؤس میں موجود ایک شخص کا نمبر ملایا تھا جو قابل اعتبار تھا۔

خضر نے سوچتے ہوئے کہا تھا وہ اس مسلے کو اپنی طریقے سے حل کرنے والا تھا۔

ٹھیک ہے سر ۔۔ بے فکر رہیں کام ہو جائیے گا۔۔

More From Author

+ There are no comments

Add yours