Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

1 min read

Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Episodes# 12 to 15

حناوے از نور راجپوت

یہ سب تم تینوں کی وجہ سے ہوا ہے اگر تم تینوں ٹریٹ نہ ٹھونستی تو یہ سب نہیں ہوتا۔۔ سماب ان تینوں پر الزام ڈال

کر خود بری ہوگئی تھی۔

موٹی تم سب سے پہلے میرے پندرہ سو نکالو باقی

 بکو اس بعد میں کرنا پہلے ہی میر اموڈ بگڑ چکا ہے۔۔

اور کس طرح سے مارتی ؟؟

 تم لوگوں نے کہا تھا وہ قابل اعتراض اشارے  کر رہے ہیں ہمیں ڈر لگ رہا ہے۔۔

 اب کیا ہوا؟؟

 کیا اچھا ہوتا اگر وہ ہمارے پاس آجاتا اور ہم میں سے کسی کا ہاتھ پکڑ لیتا پھر  عزت رہ جاتی۔۔؟؟

حناوے پر جوش لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ انداز تقریر کرنے والا تھا۔ وہ تینوں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

دیکھو جو ہوا اسے بھول جاؤ اور کچھ غلط نہیں ہو گا۔۔ جو ہوا اچھا ہوا۔۔

اب کبھی اگر وہ ہمیں مل بھی گیا تو ایسی حرکت نہیں کرے گا۔۔

 حناوے نے بات کے اختمام پر تینوں کو دیکھا جو کافی حد تک قائل نظر آرہی تھیں۔

ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ جو ہوا اسے بھول جانا چاہیے۔۔”

بالآخر ھدی نے کہا تھا۔

گڑ۔۔ اب نکلو میرے کمرے سے مجھے شدید نیند آرہی ہے۔۔” حناوے نے بیڈ پر لیٹ کر کمبل اوڑھتے ہوئے کہا۔

وہ تینوں ایک ساتھ اٹھی تھیں۔ سماب کو بھوک لگی تھی جبکہ ھدی اور منال کو بھی نیند آئی تھی وہ رات دیر تک جاگتی رہی تھیں۔

اور تم موٹی میرے پیسے شام تک تیار رکھنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔” حناوے نے کمبل کے اندر سے ہی سماب کو دھمکی دی تھی جو بر اسے منہ بنا کر کمرے سے نکل گئی کی تھی۔

وہ اسٹڈی روم میں بیٹھا پڑھنے میں مصروف تھا جب اچانک لکڑی کے شاندار میز پر رکھا اسکا فون تھر تھرایا۔۔

حیدر نے فون اٹھا کر دیکھا تو خضر کی کال تھی۔

خضر کی کال وہ بھی اس وقت ۔۔؟؟ حیدر نے ریسیو کرنے کے بعد فون کان سے لگایا۔

ہیلو حید ر تم گھر ہی ہونا ؟؟

خضر کی سنجیدہ سی آواز ابھری تھی۔

جی گھر ہی ہوں خیریت ؟؟ حیدر کے وجیہہ چہرے پر پریشانی پھیلی۔

ہاں ایک مسلہ ہو گیا ہے۔۔

کیسا  مسلہ ۔۔

سب ٹھیک ہے نا ؟؟ حیدر نے کتاب بند کرتے ہوئے پوچھا۔

“ وہ آفتیں گھر ہی ہیں ؟؟

خضر نے کوفت زدہ لہجے میں پوچھا۔ اور آفتوں کے نام پر حیدر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔

جی تین گھنٹے پہلے کسی آندھی طوفان کی طرح را نا ہاؤس میں گھسی تھیں اور  اب کافی خاموشی ہے

 ہر طرف لگتا ہے یا سو چکی ہیں یا باہر لان میں ہیں۔۔ !!”

ان چاروں کو لے کر اور خاص طور پر حناوے کو حیات ہاؤس پہنچو میں ابھی آتا ہوں

اب کیا کر دیا انہوں نے ؟؟

بتاتا ہوں تم آفتوں کی سردار کو لے کر آؤ ذرا۔۔”

 وہ سنجیدہ لہجے میں کہتا فون بند کر چکا تھا جبکہ حیدر کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔

 یقینا انہوں نے کچھ غلط کیا ہو گا۔ حیدر کو یقین تھا۔

حیدر سب سے پہلے سماب کے کمرے میں آیا تھا جو اسکی اکلوتی بہن تھی۔

 وہ کمبل تان کر سوئی کی ہوئی کی تھی۔ سماب۔۔ سماب اٹھو۔۔” حیدر نے اسے اٹھانے کی کوشش کی۔

اٹھا جاؤ سماب ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔

 حیدر نے اسکے پاس بیٹھ کر چہرے سے کمبل اتارتے ہوئی سے کہا تھا۔ اسے سماب بہت عزیز تھی۔

کیا ہے بھائی  سونے دیں نیند آئی  ہے۔۔

” سماب کی نیند سے بو جھل آواز ابھری تھی۔ وہ ہلکا سا کسمسائی  تھی۔

ہاں بالکل۔ تاکہ رات بھر تم چاروں جاگ کر پھر کچھ نیا پلان کریں

اور  نی  مصیبت کھڑی کریں ہے نا؟؟

حیدر کی بات کا سماب پر کوئی کی اثر نہیں ہوا تھا۔

اٹھ جاؤ سماب دیکھو میں پیزا لے کر آیا ہوں۔۔

” اور حیدر کا تیز نشانے پر لگا تھا۔ سماب ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔ وہ فاسٹ فوڈ کافی شوق سے کھاتی تھی۔

کہاں ہے۔۔ کہاں ہے پیزا۔۔؟؟

بکھرے بال لئیے ، موندھی آنکھوں سے وہ چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔

پیزا کھا کھا کر تم نے خود ایک دن زنگر بر گر بن جانا ہے۔۔ خضر کا فون آیا ہے۔۔

جلدی چلو وہ اپنے گھر بلا رہا ہے۔۔  حیدر نے گو یا 

د ھما کہ کیا تھا۔ سماب کے پیروں تلے سے زمین سرک گنی  تھی۔

ن۔۔ نہیں بھائی  میں نے کچھ نہیں کیا جو کیا ہے حناوے نے کیا۔۔”

سماب نے اپنی صفائی دی تھی۔

تو ٹھیک ہے پھر چلو حناوے کے کمرے میں اسے اٹھاؤ ۔۔ ورنہ حضر کے ہاتھوں تم سب کی خیر نہیں۔۔

حیدر کے چہرے پر سنجید گی دیکھ کر سماب ایک جھٹکے سے بیڈ سے نیچے اتری تھی۔

ہاتھوں سے بالوں کو سیدھا کیا اور حیدر کے پیچھے ہی کمرے سے باہر نکل گئی ۔

اب وہ حناوے کے کمرے کے سامنے تھے۔ سماب اندر چلی گئی ہی تھی جبکہ حیدر باہر ہی کھڑا تھا۔

اسے سماب کے علاوہ رانا ہاؤس کی کسی اور لڑکی کے کمرے میں یوں جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔

اسی لئی سے پہلے وہ سماب کو اٹھا کر لایا تھا وہ اسکی بہن تھی اس لئے وہ مطمئن تھا۔

حناوے اٹھ جاو مسلہ ہو گیا ہے۔۔ اور وہ بھی تمہاری وجہ سے۔۔”

سماب حناوے کو اٹھا رہی تھی جو نیند کی بہت پکی تھی۔ سوتی تھی تو گھنٹوں اٹھتی ہی نہیں تھی۔

، خضر بھائی کی بلا رہے ہیں۔۔ ”

سماب نے اسے ڈرانہ چاہا۔

، مجھے نہیں جانا کہیں بھی اور تم مجھے تنگ نہ کرو جاؤ یہاں سے۔۔”

حناوے نے دوٹوک جواب دیا تھا۔

حیدر بهائی  اندر آجائے  یہ نہیں اٹھ رہی۔۔ “

سماب نے حیدر کو بلایا تھا اور وہ سماب کی موجودگی میں اندر آ گیا تھا۔

 حناوے۔۔”

حیدر کی میٹھی سی آواز ابھری تھی۔ حناوے نے پٹ سے آنکھیں کھولی۔

 چہرے سے کمبل اتار کر دیکھا کہ واقعی وہ ہے یا نہیں۔۔

اور وہ اسکے سامنے ہی کھڑا تھا۔

را نا خاندان کا یہ واحد لڑکا جو حناوے کو تھوڑا بہت پسند تھا۔ وجہ حیدر کا دھیمہ لہجہ اور اپنے کام سے کام رکھنا تھا۔

وہ کافی پڑھا کو  تھا اسی وجہ سے سی ایس ایس کے پیپر دے چکا تھا اسکار زلٹ آنے والا تھا۔

وہ کبھی ان چاروں کو انکی غلطیوں پر نہیں ڈانٹتا تھا بلکہ ہمیشہ پیار سے سمجھاتا تھا۔ اسکے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی۔

آپ۔۔ آپ یہاں ۔۔۔ حناوے اٹھ بیٹھی۔

خضر بلا رہا ہے چلو میرے ساتھ ۔۔ وہ کافی سنجیدہ لگ رہا تھا۔

جی میں آتی ہوں۔۔” حناوے بات مان گئی  تھی۔

میں نیچے انتظار کر رہا ہوں جلدی آنا۔۔ ” وہ اس آفت کی پڑیا سے کہہ کر چلا گیا تھا۔

کیا ہوا ہے ؟؟ حناوے نے سماب سے پوچھا۔

وہی جو ہمیشہ ہوتا ہے۔۔ ہمارا ہر غلط کام کا علم سب سے پہلے خضر بھائی کی کو  ہوتا ہے۔۔

خضر کا نام سن کر حناوے کے چہرے پر ناگواری ابھری۔

اگر اس دنیا صرف یہ ایس پی خضر حیات نہیں ہوتا تو میری زندگی گلزار ہوتی۔۔

حناوے بر اسامنہ بناتے کہتے بیڈ سے نیچے اتری تھی۔

 وہ جانتی تھی یہ خبر خضر تک ضرور جائیے گی۔

 لیکن اتنی جلدی پہنچ جائیے گی اسے اندازہ نہیں تھا۔

کہاں جارہے ہو تم سب لوگ ؟؟”

فاریہ بیگم نے ان چاروں کو حیدر کے ساتھ باہر کی جانب جاتے دیکھ تو پوچھا۔

‏ وہ امی پھوپھو نے بلایا ہے۔۔ ”

حناوے نے جھوٹ بولا۔

، لیکن کیوں۔۔؟؟

فاریہ بیگم کو حیرت ہوئی ۔

وہ دراصل موسم کافی اچھا ہے نا آج۔۔ تو انہوں نے پکوڑ بنائی سے ہیں اسی لے جارہے ہیں۔۔

ھدی نے جواب دیا۔

جب حید ر انکے یوں جھوٹ بولنے پر حیران رہ گیا تھا۔ فاریہ بیگم مشکوک نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔

جائیں ہم۔۔؟؟

انکے یوں دیکھنے پر حناوے نے پوچھا –

تو انہوں نے ہولے سے سر ہلا دیا اور وہ چاروں لاؤنج کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گئی –

کیا تم نے دنیا میں سبھی غلط کام کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ؟؟”

 خضر ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا رہا تھا۔

 حناوے لیپ ٹاپ پر نظریں جمائی سے بیٹھی تھی جہاں ویڈیوں ریکارڈنگ چل رہی تھی۔

اور تم لوگ کالج پڑھنے جاتی ہو یا آوارہ گردی کرنے ؟؟

وہ اب ان تینوں کو دیکھ رہا تھا جو صوفے پر نظریں جھکائی بیٹھی تھیں۔

 جبکہ حیدر چائے کے ساتھ ساتھ انکی عزت افزائی سے بھر پور لطف اندوز ہو رہا تھا۔

یہ جان بوجھ کر نہیں کیا میں نے۔۔ بس ہو گیا۔۔ “

حناوے نے صفائی دی۔‏

کیا واقعی جان بوجھ کر نہیں کیا ؟؟”

 وہ یونیفارم پہلے خالص پولیس افسر کے انداز میں تفشیش کر رہا تھا۔

خضر بھائی کی وہ ہمیں تنگ کر رہے تھے۔۔ اور اشارے بھی۔۔ آپ دیکھ لیں۔۔ منال نے کچھ کہنے کی جرات کی تھی۔

سب دکھ رہا ہے مجھے۔۔۔” وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

بس کرد و خضر بچیوں کی جان لو گے اب کیا ؟؟

 رخسار پھو پھونے اسکے یوں ڈانٹنے پر اسے ٹوکا تھا۔

بچیاں ۔۔۔؟؟

اماں یہ بچیاں ہیں ؟؟

 اور یہ بچیوں کے کام ہیں ؟؟ سیٹھ شبیر پرچہ کٹوا چکا ہے۔۔

 اور آپ انہیں بچیاں کہہ رہی ہیں۔۔ کمال  ہے۔۔

وہ کچھ زیادہ ہی غصے میں تھا۔ حنا وے منہ پھلائی سے بیٹھی تھی۔ اسکے کٹے ہوئے بال پیشانی پر بکھرے تھے۔

وہ صرف خضر کو سخت سخت جواب دینا چاہتی تھی لیکن حیدر اور پھو پھو کی وجہ سے چپ تھی۔

 وہ دونوں کے سامنے اپنا امیج خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اچانک خضر کی نظر حیدر پر پڑی تھی جو پکوڑے کھانے میں مصروف تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔

تم کیوں ہنس رہے ہو۔۔

 لطیفے سنا رہا ہوں میں ؟؟

خضر نے جل کر حیدر سے کہا جو انہیں سمجھانے کی بجائے پر سکون بیٹھا تھا۔ اور اوپر سے مسکرارہا تھا۔

 خضر اور حیدر کی اچھی خاصی دوستی تھی۔

میں اس لے ہنس رہا ہوں کہ ہمارے خاندان کی لڑکیاں کم از کم بھولی  بھالی نہیں ہیں جنہیں کوئی  یوں تنگ کر سکے۔۔۔

 بلکہ یہ حشر نشر کرنے والی ہیں۔۔

حیدر کی بات سن کر حناوے کا سیر وں خون بڑھا تھا۔

اور میں پر سکون اس لئے ہوں کہ کیونکہ میں جانتا ہوں سیٹھ شبیر  جیسے لوگوں سے نمٹنا تمہارا بائیں  میں ہاتھ کا کام ہے  حیدر نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔

خضر کے تنے ہوئی سے کندھے ڈھیلے پڑے۔

اور میں انہیں ڈانٹ اس لئے نہیں رہا کہ وہ کام تم

با خوبی پورا کر رہے  ہو۔۔

اگر ڈانٹ ختم ہو گی ہو تو آجاو چائے پی لو ٹھنڈی ہو جائیے گی۔۔

حیدر نے اسے پر سکون کرنے کی کوشش کی۔

نہیں مجھے پولیس اسٹیشن واپس جانا ہے۔۔ تم چاروں خیال رکھنا وہ لوگ کہیں بھی ملیں تو پہچاننا مت۔۔

اور تم ۔۔ مس حناوے رانا۔۔

 میں نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا تمہیں ہر مصیبت سے بچانے کا اس لئیے آئیندہ سوچ سمجھ کر کچھ کر ناور نہ نتیجہ !! رانا ہاؤس والے خود بگتیں گے۔۔

 وہ واضح دھمکی دیتا اپنی کیپ اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا تھا۔

 اب کچھ دن پہلے ہی تو ہوائی  فائیر  کر کے حناوے کو کتے بچایا تھا۔۔ اور آج وہ مزید انسانی جانور کو پیچھے لگوا آئی  تھی۔

کیا یار پھوپھو ۔

۔ شاہ ویز اور یہ خضر ۔۔ یہ دونوں کیا کھاتے ہیں جو ہر وقت  مرچیں چباتے رہتے ہیں۔۔؟؟

 اسکے جانے کے بعد حید ر نے گرم ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔

نہیں مجھے پولیس اسٹیشن واپس جانا ہے۔۔ تم چاروں خیال رکھنا وہ لوگ ”

کہیں بھی ملیں تو پہچاننا مت۔۔ اور تم ۔۔ مس حناوے رانا۔۔ میں نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا تمہیں ہر مصیبت سے بچانے کا اس لئیے آئیندہ سوچ سمجھ کر کچھ کر ناور نہ نتیجہ !! رانا ہاؤس والے خود بگنیں گے۔۔ وہ واضح دھمکی دیتا اپنی کیپ اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا تھا۔ اب کچھ دن پہلے ہی تو ہوائی کی فائی کر کے حناوے کو کتے بچایا تھا۔۔ اور آج وہ مزید انسانی جانور کو پیچھے لگوا آئی کی تھی۔

کیا یار پھوپھو ۔۔ شاہ ویز اور یہ خضر ۔۔ یہ دونوں کیا کھاتے ہیں جو ہر وقت  مرچیں چباتے رہتے ہیں۔۔؟؟

 اسکے جانے کے بعد حید ر نے گرم ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔

یہ تو میں خود بھی نہیں جانتی۔۔” رخسار پھوپھو مسکرادیں۔

جی نہیں شاہ ویز بھائی زیادہ غصے والے ہیں۔۔ جبکہ خضر تو بہت کیرنگ ہیں۔۔

ھدی کے منہ سے بے اختیار پھسلا تھا۔ حناوے نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئیے اسے دیکھا جو جھینپ گئی تھی۔

آئیندہ تم لوگ اکیلے کہیں جاؤ گی۔۔ کہیں بھی جانا ہو مجھے کہہ دینا میں  لے جاؤں گا۔۔ تم لوگوں کی وجہ سے کریم بخش (ڈرائیور) کی نوکری بھی رسک میں پڑگئی کی ہے۔

 اگر شاہ ویز کو پتا چلا تو وہ انہیں نکالنے میں دیر نہیں لگائے گا اور یہ اچھا نہیں ہو گا۔۔ سمجھ آئی کی؟؟

حید را نہیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

جی سمجھ گئی ہے۔۔۔حناوے چہکی تھی۔ وہ ڈھیٹ مٹی سے بنی تھی۔

 ابھی کچھ دیر پہلے کیا ہوا تھا وہ سب بھول بھال کر چائے اور پکوڑوں پر ہاتھ صاف کر رہی تھی۔

میرے مزاج میں خرسی وفائیں شامل ہیں “

 تیرے وجود میں بستا ہے، جا بہ جا گوفہ

وہ نک سک ساتیار ہو کر آئیینے کے سامنے کھڑا تھا۔ پر فیوم کا اسپرے خود پر کرتے ہوئیے وہ خود کی شاندار شخصیت کو دیکھ رہا جس پر اسے بہت غرور تھا۔

اچانک اسکے موبائل پر بپ ہوئی  تھی۔ آگے بڑھ کر اس نے موبائل اٹھایا تو اسے واضح لفظوں میں بے وفا کہا گیا تھا۔

 اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھرگی۔۔ وفا کرنا اور وفادار کہلانا اسے ویسے بھی پسند نہیں تھا۔

میں آپکو بہت مس کر رہی امن ۔۔”

 جذبات سے بھر پور الفاظ سکریں پر چمکے تھے۔ وہ کل سے اسے اگنور کر رہا تھا۔

 وہ لڑکی جسے وہ جانتا تک نہیں تھا اس پر مر مٹی تھی۔

 اور امن وہ اب کبھی توجہ دیتا تو کبھی اگنور کر دیتا تھا

وہ خوبصورت تھی۔۔ اور خوبصورتی امن ملک کی کمزوری تھی۔

میں آرہا ہوں تم سے ملنے۔۔” اس نے میسج ٹائیپ کر کے سینڈ کیا تھا۔

وہ حیران ہوئی تھی۔

ہاں تم ملنا چاہتی ہو نا مجھ سے۔۔ چلو آج تمہاری خواہش پوری کر دیتے  ہیں۔۔ !!” وہ جیسے سخی ہوا تھا۔

مجھے بتائیں کہاں آنا ہے۔۔ میں خود پہنچ جاتی ہوں۔۔”

اسکی بات کے جواب میں امن نے ایک مشہور ریسٹورینٹ کا نام بتایا اور موبائل بند کر واپس رکھ دیا۔

اور پھر سیٹی پر کوئی  دھن گنگنا تا آئینے میں خود کو دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔

سیٹھ صاحب آپ ایک بار ریکارڈ نگ ویڈیو غور سے دیکھ لیں__

اس نے لڑکی نے وہ کانٹا جان بوجھ کر نہیں مارا تھا۔۔ وہ ہاتھ ہلا رہی تھی وہ اسکے چھوٹے کر پیچھے کہ جانب گر گیا۔۔

خضر فون پر سیٹھ شبیر سے بات کر رہا تھا۔ جبکہ اسکے سامنے بیٹھا عادل غصے سے اسے گھور رہا تھا۔

اور آپ نے شاید دیکھا نہیں سیٹھ شبیر انڈسٹریز کا اکلوتا وارث اتنے بڑے ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر لوفروں کے انداز میں اشاروں میں لڑکیوں کو چھیڑ رہا ہے اسکے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟

 خضر نے زہر خند نظروں سے عادل شبیر کو گھورتے ہوئی سے فون میں سیٹھ شبیر کو سنایا تھا۔

آج کل کے جو ان خون ہے ایس پی صاحب اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔۔

” سیٹھ شبیر نے زبر دستی مسکرا کر بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔

جی جانتا ہوں یہ جوان خون آج سر سے نکلا ہے نا آئندہ کیلے سبق ہو گا۔۔۔ اور آپکے بیٹے پر ہراسمینٹ کے بہت سے کیس ہیں انکا کیا کروں میں ؟؟

شاید سیٹھ شبیر بھول گیا تھا اس نے کس کو فون کیا تھا۔ ایس پی خضر حیات ہاتھ آنے والوں میں سے ہی نہیں تھا۔

یہ سب جھوٹ ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ “

میرے سامنے فائل پڑی ہیں۔۔ میں چاہوں تو ابھی آپکے بیٹے کو گرفتار  کر سکتا ہوں۔۔ خضر نے دوٹوک لہجے میں کہا تھا۔

میرے بیٹے سے بات کروائیں۔۔”

 سیٹھ شبیر کی آواز ابھری تھی اور خضر نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے فون عادل شبیر کی طرف بڑھایا تھا۔

میں نے تم سے کہا تھا یہ اتنی بڑی بات نہیں ۔۔ وہ حادثہ تھا بس ایک۔۔”

چھوڑو سب اور واپس آجاؤ ۔۔

، لیکن ڈیڈ۔۔”

عادل میں نے کہانا واپس آجاؤ ۔۔ ورنہ ہم الٹا مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔۔

اسپیکر سے ابھرتی آواز خضر با قاعدہ سن سکتا تھا۔ عادل شبیر کا چہرہ غصے کی وجہ سے سرخ ہو چکا تھا۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور کھا جانے والی نظروں سے خضر کو گھورتے ہوئیے واپس چلا گیا۔ اسکے ساتھ اسکے دوست بھی تھے۔

پانچ منٹ بعد خضر کا موبائل پھر سے بجا تھا۔ اس نے دیکھا تو انجان نمبر تھا کوی۔

ہیلو۔۔ ایس پی خضر حیات از اسپیلنگ۔۔”

 خضر نے فون کان سے لگاتے ہوئی سے کہا۔ وہ اب آفس سے باہر نکل آیا تھا۔ رات ہوگئی کی تھی۔ اسکی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو چکا تھا۔

 میں اچھی طرح سے جانتا ہوں ایس  پی صاحب۔۔ وہ لڑ کی حناوے تمہاری  کزن ہے اسی لے تم نے بچایا اسے۔۔ یاد رکھنا میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔

عادل شبیر پھنکار ا تھا۔

ایس پی خضر حیات رانا کے ہوتے ہوئی ہے تم حناوے رانا تک نہیں پہنچ  سکتے

اور آئیندہ مجھے فون کر کے دھمکی دینے کی یا الٹی سیدھی بکواس کرنے کی کوشش کی تو آٹھ دس کیس اور ڈال کر تمہیں اندر کر دوں گا۔۔

 اور میرے لیے یہ مشکل نہیں تم اچھے سے جانتے ہو۔۔

خضر اسکی سٹی گم کر تا فون بند کر چکا تھا۔ اپنی جیپ میں بیٹھنے کے بعد اس نے گاڑی کا رخ گھر کی جانب کر دیا تھا۔ بنا یہ سوچے کے اسکی باتیں عادل شبیر کو اندر تک سلگاگی تھیں۔

ایس پی خضر حیات رانا کے ہوتے ہوہے تم حناوے رانا تک نہیں پہنچ  سکتے

یار حناوے دیکھو نا یہ بندہ کتنا ڈیشنگ ہے۔۔!!

‘ سماب نے جو لیپ ٹاپ ”کھولے فیس بک پر لڑکوں کی پر وفائلز چیک کر رہی تھی حناوے سے کہا۔

سچی۔۔ مجھے بھی دکھاؤ کون ہے۔۔؟؟‘ھدی جو منال کا ہیرا سٹائیل  بنارہی تھی اس نے بالوں کو ایک دم چھوڑ کر لیپ ٹاپ پر جھکتے ہوئے کہا۔

امن_ملک۔۔ نائس نیم ۔۔ ھدی کے منہ سے پھیلا۔ ”

حناوے تم بھی دیکھونا۔۔ ” سماب نے حناوے کو پکارہ جو وہ ٹی وی پر نظریں جمائے کوئی کی مشہور شو

د یکھنے میں مگن تھی۔

مجھے فضول لوگوں میں بالکل دلچسپی نہیں۔“۔ ” حناوے نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

 ہائی ہیں۔۔

یہ حادثہ کب ہوا ؟؟ ان تینوں نے گھور کر حناوے کو دیکھا۔

ویسے یہ جو بھی خضر حیات رانا سے زیادہ پر وقار نہیں ہے۔۔”

 ھدی نے ناک چڑا کر کہا۔

آئیے ہائے۔۔ کیا بات ہے۔۔ “ اب کی بار حناوے نے پلٹ کر ” دیکھا۔ اسکے چہرے پر شرارت تھی۔ ھدی جھینپ گئی ۔

میرا  اسٹائیل تو مکمل کر دو۔۔ ” منال نے جو بت بنی بیٹھی تھی ایک دم چلا کر کہا۔

اچھا بناتی ہوں۔۔ ھدی دوبارہ منال کی طرف متوجہ ہوئی ی۔۔ تبھی  کمرے میں وہ داخل ہوا۔۔

آفت کا پر کالا۔

حناوے کا چھوٹا بھائی ۔۔ اس نے گہری نظروں سے چاروں کا جائزہ لیا اور پھر کرسی کھینچ کر منال کے سامنے بیٹھ گیا۔۔

ایک بات کہوں ھدی آپی۔۔“ وہ پوچھ رہا تھا۔ ”

ہاں بولو۔۔”

آج آپکے پاس موقع ہے۔۔ اپنے سارے بدلے لے لیں۔۔”

کیسا موقع ۔۔؟؟“ ھدی نے ہاتھ روک کر اس سے پوچھا۔ ”

منال آپی کے بال آپکے ہاتھ میں ہیں۔۔ انکو زور سے پھاڑ کر آپ اپنے  سارے بدلے لے سکتی ہیں۔۔

اِس طرف ماریں انکا سر دیوار میں اور پھر اس طرف۔۔ منال آپی کے طوطے اڑا دیں۔۔

 قسم سے مزہ آجائے گا۔۔

اسکی بات پر حناوے، سماب اور ھدی کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔

کمینے۔۔ ٹھہرو میں بتاتی ہوں تمہیں۔۔ “ منال ایک جھٹکے سے کرسی سے  اٹھ کر اسکے پیچھے بھاگی۔۔

جبکہ وہ پہلے ہی سپیڈ مار چکا تھا۔

منال اسکے پیچھے تھی جبکہ وہ قہقہے لگاتا تیزی سے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔

، تمہیں آج میں چھوڑوں گی نہیں ۔۔ “

منال اپنے بکھرے بال، جو کچھ پنوں میں مقید تھے اور کچھ کندھے پر بکھرے تھے،

عجیب و غریب سی حالت میں سرخ چہرہ لئے امن کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔

جیسے ہی وہ سیڑھیاں اتر کر امن کے پیچھے اسکے کمرے کی طرف بھاگی اچانک دوسرے کمرے سے نکلتے وجود سے ٹکراگئی ۔

 ایک پل کو منال کو لگا تھا کہ وہ کسی دیوار سے ٹکرائی کی ہے۔ وہ کراہ کر رہ گئی  تھی۔

کیا ہو رہا ہے یہ۔۔ نظر نہیں آتا تمہیں ؟؟

” منال نے اپنے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کر کے دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ کس چیز سے ٹکرائی  تھی تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر گنگ رہ گی ۔

شاہ ویز غصے سے اسے گھور رہا تھا۔

پاگلوں کی طرح کیوں بھاگ رہی ہو۔۔۔ تم لوگوں کی ہڈی کو سکون کیوں نہیں ؟؟

 منال کی سٹی گم ہوئی ۔۔ اسکا وجو د لر زرہا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کیا جواب دے۔

وہ۔۔ وہ شاہ ویز۔۔۔ بھا۔۔ بھائی ی۔۔۔ وہ امن ۔۔” منال کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن الفاظ دم توڑ گئی ہے۔

اور یہ کیا حالت بنارکھی ہے۔۔؟؟

شاہ ویز نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر گہرے میک اپ کا لیپ موجود تھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے ھدی اسکے چہرے پر اپنا ہنر آزمارہی تھی۔ اگر اس وقت منال اپنا چہرہ دیکھتی تو یقینا ڈر جاتی۔۔

 شاہ ویز کی بات سن کر وہ شدید شرمندہ ہوئی ۔

کیا ہوا شاہ ویز بیٹا۔۔

 کیا کیا منال نے۔۔؟؟

شاہ ویز کی آواز سن کر سکینہ بیگم ( منال کی امی ) نے، جو کہ کچن میں ملازمہ کے سر پر کھڑیں دو پہر کے کھانے کی تیاری کروارہی تھیں، پریشانی سے پوچھا۔

اس گھر میں سب ہی پاگل ہیں بچی۔۔

 منال کا چہرہ دیکھیں ذرا۔۔ سمجھدار  لڑکیوں والے گھن ان سب کو چھو کر نہیں گزرے۔۔

وہ سخت سے لہجے میں کہتا باہر کی جانب قدم بڑھا چکا تھا۔۔ جبکہ منال نے آنکھوں میں آئی  نمی کو اندر کی جانب کھینچا تھا۔

کتنا سمجھاتی ہوں تم لوگوں کو کہ تھوڑی عقل استعمال کر لیا کرو۔۔ ہر وقت  بچیاں بنی رہتی ہو۔۔

جاؤ اب جا کر چہرہ صاف کرو۔۔

 سکینہ بیگم غصہ ضبط کرتے منال سے کہا جو سر جھکا کر سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھا چکی تھی۔

اللہ جانے کیا بنے گا ان لڑکیوں کا۔۔”

 پیچھے سکینہ بیگم بس سوچ کر رہ گئی کی تھیں۔

کہتے ہیں وقت انسان کا سب سے بڑا دوست بھی ہے اور دشمن بھی

اگر ہم اس وقت کا صحیح استعمال کریں اور وقت ہمارا ساتھ پوری ایمان داری سے دے تو ہمارے کارناموں کو ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے

اور اگر اسی وقت کے کسی پل کے ہزارویں حصے میں ہم کوئی کی غلطی کر دیں،

 یا وقت ہمیں دھوکا دے جائیے تو وقت ایساد شمن بنتا ہے یہ ہماری غلطی اور گناہ کو صدیوں تک زندہ رکھتا ہے

اور سب سے بڑی غلطی ہم سے ”محبت“ کرواتی ہے اور کہتے ہیں ذلیحہ نے بھی محبت میں غلطی کی تھی اور یہ غلطی پھر دہرائی کی گئی -۔

 اُس ذلیحہ کو معافی مل گئی تھی

لیکن آج کے دور میں کوئی کی ذلیحہ غلطی کر بیٹھےتو اسے معافی نہیں ملتی ___ !! اسکے مقدر میں سزائی میں لکھ دی جاتی ہیں

حویلی کے پچھلے حصے میں جہاں تالاب بنایا گیا تھا

 اس میں بطخیں تیر رہی تھیں، اور آس پاس رکھے لوہے کے پنجروں میں رنگ برنگے پرندے قید تھے انکی چہچہاہٹ نے فضا میں عجیب سا ارتعاش پیدا کیا ہوا تھا۔

قدسیہ بانو ایک پرانی سی تصویر ہاتھ میں لئے اپنے کمرے کی کھڑی میں رکھی آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھیں جس سے تالاب کا منظر واضح نظر آرہا تھا۔

کمرے میں پرانی طرز کا لکڑی کا سامان تھا لیکن وہ شاندار تھا۔

وہ خیام رانا کی برسوں کی ساتھی تھیں۔ ہر قدم پر ساتھ نبھانے والیں_

وفا شعار بیوی انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش میں کوئی کی کمی نہیں چھوڑی !! تھی لیکن پھر بھی کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ چھوٹ جاتا ہے

ہاتھ میں لئے تصویر کو دیکھتے انکی آنکھیں نم ہوئی کی تھیں۔ تصویر میں ایک خوبصورت لڑکی نظر آرہی تھی جو چہرے سے ہی شوخ و چنچل لگ رہی تھی۔

لیکن ناجانے وہ اب کہاں تھی۔

کاش تم نے مجھے سب بتادیا ہوتا _

تم ایسا نہیں کرتی میرے ذلے” تمہاری ایک غلطی کی سزا تمہارے ساتھ ساتھ میں خود بھگت رہی ہوں ___

 تم جہاں بھی ہو میں ہمیشہ تمہارے خوش رہنے کی دعا کرتی ہوں_الله تمہیں خوش رکھے آمین—

نمل پورے دھیان سے الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں رکھ رہی تھی۔ اسے حیدر آباد جانا تھا اپنی ٹیم کے ساتھ۔

 وہ پیکنگ میں مصروف تھی جب اچانک اسکا فون بجا۔

نمل نے دیکھا تو اسکے کو لیگ صائم کا فون تھا۔

ہیلو نمل تیاری کر لی تم نے ؟؟ بس دو گھنٹے تک نکلنا ہے ہم نے۔۔

” نمل کے فون اٹھانے پر صائم کی آواز ابھری تھی۔

ہاں۔۔ میں پیکینگ ہی کر رہی ہوں۔۔” نمل نے جواب دیا۔

تم نے شاہ ویز سے پوچھ لیا ؟ یہ نہ ہو کہ وہ عین وقت پر تمہارے لئیے مسلہ پیدا کرے۔۔ صائم کے لہجے میں پریشانی تھی۔

شاہ ویز میرا شوہر نہیں ہے جس سے مجھے اجازت درکار ہو گی۔۔ میں نے  بابا اور رحمن بھائی کی سے پوچھ لیا ہے۔۔ نمل نے مضبوط لہجے میں بتایا تھا۔

وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن شاہ ویز کی زیادہ چلتی ہے تمہارے خاندان میں  اس لئے کہہ رہا ہوں۔۔

تم فکر مت کرو۔۔ میں حیدر آباد ضرور جاؤں گی۔۔”

آواز پر  نمل  نے چونک کر پیچھے دیکھا۔

میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں صائم۔۔۔”

نمل نے سکینہ بیگم کو کمرے کے دروازے میں کھڑے دیکھ کر صائم سے کہا اور فون بند کر دیا۔

یہ کہاں جارہی ہو تم ۔۔ ؟؟” نمل کا بیگ دیکھ کر سکینہ بیگم کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔

حیدر آباد نمل نے ایک لفظی جواب دیا۔

لیکن کیوں۔۔؟؟ وہ حیران ہوئی ہیں۔

آپکو بتایا تھا امی۔۔ ہماری پوری ٹیم جارہی ہے این جی او کی طرف سے۔۔”

 اور میں اپنی ٹیم کی ہیڈ ہوں۔۔ اور جانالازمی ہے۔۔

 تم نے اجازت لی کسی سے۔۔؟؟ نمل کسی کا مطلب اچھے سے سمجھتی تھی۔

میں نے بابا اور رحمن بھائی کی سے اجازت لے لی ہے۔۔ دادا جی یہاں پر  ہیں نہیں باقی کون بچتا ہے۔۔؟؟

 نمل نے معصوم بنتے پوچھا۔

تم اچھی طرح جانتی ہو میں کس کی بات کر رہی ہوں۔۔”

امی مجھے شاہ ویز سے اجازت کی ضرورت ہر گز نہیں ہے آپ کیوں نہیں سمجھتیں۔۔؟؟

 میں اسکی غلام نہیں ہوں۔۔ اور نہ میرا اس سے نکاح ہوا ہے۔۔ پھر سانس لینے میں بھی اسکی اجازت کیوں لوں ؟؟ نمل کو غصہ آگیا تھا۔

وہ شاہ ویز شاہ ویز سن کر اکتا چکی تھی۔ وہ شخص اسکے سانس لینے پر بھی پابندی لگا دینا چاہتا تھا۔

نمل تم بھی سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ تم اسکی ہونے والی بیوی ہو۔۔

 اسکا حق  ہے تم پر۔۔ اور پھر حیدر آباد میں گاؤں گاؤں گھومو گی ۔۔

 وہ مری نہیں ہے۔۔ وہاں بہت گرمی ہوتی ہے۔۔ پہلے تم اپنی رنگت کا خیال نہیں رکھتی۔۔

 دھوپ کی وجہ سے مزید کملا ہو جائیے گی اور شاہ ویز جیسا شخص جسکے لیے بڑے بڑے گھرانوں سے رشتے آتے ہیں اگر اس نے ہی تم  سے شادی سے انکار کر دیا پھر ؟؟

سکینہ بیگم نے اپنا خد شہ بیان کیا۔

امی کچھ نہیں ہوتا۔۔ یہ رنگ روپ سب وقتی ہے اور ہو گا وہی جو بہتر  ہے۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔

نمل نے سکینہ بیگم کو دلاسہ دیا تھا۔

جو ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی کی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں نمل نے اپنی مرضی ہی کرنی تھی۔ اسے شاہ ویز کے غصے اور ناراضگی سے کوئی  فرق نہیں پڑتا تھا۔

را نا خاندان کا تعارف_خیام را نا اور قدسیہ بانو کے چار بیٹے اور تین  بیٹیاں تھیں

سب سے بڑا بیٹا حسن رانا اور اسکی بیوی شہناز بیگم تھیں جنکے چار بچے تھے۔ سب سے بڑا شاہ ویز پھر ہادیہ آپی جسکی شادی ہو چکی تھی پھر زین اور سب سے چھوٹی ھدی

دوسرے نمبر پر عثمان رانا اور اسکی بیوی سکینہ بیگم تھیں۔ جنکے تین بچے تھے عبدالرحمن جو شادی شدہ اور اپنی بیوی کے ساتھ اسلام آباد میں رہتا تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ وکیل تھا۔ اسکی چھوٹی نمل اور پھر منال تھی

تیسرے نمبر پر میجر اغوان را نا تھا جو شہید ہو چکا تھا۔ اسکی بیوی فاریہ بیگم تھیں اور تین بچے۔۔ سب سے بڑا شاہ بخت جو اپنے باپ کی طرح آرمی میں گیا تھا اور اب کیپٹن تھا۔۔ اس سے چھوٹی حناوے اور اس سے چھوٹا امن۔۔۔

————‐

چھوتے نمبر پر حسین را نا تھا جسکی بیوی سمعیہ کی وفات ہو چکی تھی۔۔ دو ہی بچے تھے۔۔ حیدر رانا اور سماب

بیٹیوں میں سب سے بڑی شاہینہ پھو پھو تھی جو اپنی فیملی کے ساتھ کراچی رہتی تھیں۔

ان سے چھوٹی رخسار پھوپھو ۔۔ جنکا شوہر حیات رانا تھا۔۔ جنکی وفات ہوگئی کی تھی اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رانا ہاؤس کے بالکل سامنے حیات ہاؤس میں رہتی تھیں۔

( اور سب سے چھوٹی اور لاڈلی ذلے تھی۔۔ جو سالوں سے لاپتہ تھی۔

رانا ہاوس میں کافی خاموشی تھی۔ نمل حیدر آباد چلی گئی ہی تھی۔ جبکہ منال اور سماب گھر کے آدھے لوگوں کے ساتھ اسلام آباد چلی گئی تھیں۔

رحمن بھائی کی کو اللہ نے بیٹے سے نوازا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ خاص طور پر منال وہ اپنے بھتیجے کو دیکھنے کیلے بہت بے چین تھیں۔

آج کافی بوردن گزر رہا ہے۔۔ کچھ نیا کریں۔۔” حناوے نے ھدی سے کہا تھا۔

میں تو خضر کا انتظار کر رہی ہوں۔۔ اور اس انتظار کا اپنا ہی الگ مزہ ہے۔۔” ھدی نے جواب دیا تھا۔

ویسے حیرت کی بات ہے تمہیں دنیا میں صرف ایس پی خضر حیات را نا ہی ملا تھا پسند کرنے کیلیے۔۔ باقی را نا ہاؤس کے لڑکے مرگے کیا محبت کرنے کیلئیے _____؟؟

حناوے نے جل کر پوچھا۔

ہاں ایسا ہی سمجھ لو۔۔ تم نے دیکھا نہیں وہ کتنا خیال رکھنے والا ہے۔۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔۔

اور اسکی دھاک بھی تو الگ ہے۔۔

ھدی نے سرخ ہوتے ہوئیے چہرے کے ساتھ کہا تھا۔

اللہ تم پر رحم کرے۔۔” ھدی کی حالت دیکھ کر حناوے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا تھا۔ اور کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹا دیا۔

!! لو آگیا تمہارا پولیس والا ہیر و رشوت خور ہو نہ “

 حناوے نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے نیچے جھانکتے ہوئی سے کہا تھا۔

 گھر سے باہر پتھریلی سڑک پر خضر کی جیپ آکرر کی تھی۔

“کیا واقعی ؟؟ ، ھدی ایک جھٹکے سے بیڈ سے نیچے اتری تھی۔

پھو پھونے کہا تھا جب خضر رات کو آئیے تو اسے کھانا گرم کر کے دے دینا۔۔

 اب تم تو یقینا نہیں جانے والی تو میں نے سوچا یہ فرئضہ میں سر انجا م  دے دوں۔۔

وہ اپنی خوشی چھپاتے ہوئیے پر جوش سی بول رہی تھی۔

رخسار پھو پھو بھی سکینہ بیگم اور فاریہ بیگم کے ساتھ اسلام آباد گئی تھیں۔

بھو کے نہیں آئیے موصوف _ تمہیں نہیں پتا یہ پولیس والے کتناکھاتے ہیں اور وہ بھی حرام کا

حناوے نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئی سے کہا تھا۔ اسے وہ سارے واقعات یاد تھے جب جب خضر حیات اسکی بے عزتی کا باعث بنا تھا۔

تم بلا وجہ ہی بد گمان رہتی ہو حناوے_خیر میں تم سے بعد میں بات  کرونگی ابھی میں ذرا حال چال پوچھ آؤں

ھدی مسکرا کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئی کی تھی۔

میں ہوتی تو زہر ڈال دیتی کھانے میں مجرموں کی جان بھی بیچ جاتی

حناوے نے آخری نظر خضر پر ڈالتے ہوئی سے کہا تھا جو اب اپنے گھر کے لان میں داخل ہو چکا تھا۔ اسکی چال میں ایک پختگی تھی۔

 وہ دو دن بعد گھر آیا تھا لیکن کہیں سے بھی تھکا

ہوا نہیں لگ رہا تھا۔

سر جھٹک کر وہ کھڑکی سے ہٹ گئی کی اور فون اٹھا کر علیزے کا نمبر ملانے لگی۔ لیکن اس سے پہلے ہی رخسار پھوپھو کی کال آگی  تھی۔

حناوے بیٹا خضر گھر آگیا ؟؟ تم نے اسے کھانا دیا؟؟”

حناوے کے سلام کا جواب دینے کے بعد انہوں نے فوراً پوچھا تھا۔

حناوے نے ایک گہر اسانس لیا۔ وہ جتنی بھی بد تمیز سہی لیکن رخسار پھو پھو کی لہجے کی نرمی اور انکی محبت حناوے کو تمیز سے بات کرنے پر مجبور کر دیتی تھی۔

جی پھوپھو وہ ابھی آئے ہیں ھدی انہیں کھانا دینے گئی –

ہاں!!” ہاں!!

حناوے نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔

 بیٹا میں نے تم سے کہا تھا _ چلوا چھی بات ہے ھدی کھانے دینے  گنی کے لیکن تم بھی ایک بار چیک کر لو میرے دل کو تسلی   ہو جائیے گی

رخسار پھوپھو کی بات سن کر حناوے کو عجیب سا لگا تھا۔ وہ بہت غیر ذمہدار تھی اسکی خود کی ماں اس پر بھروسہ نہیں کرتی تھیں

 اور ایک رخسار پھو پھو تھیں جو نا جانے کیوں اسے سمجھدار سمجھتی تھیں۔

جی اچھا میں دیکھتی ہوں۔۔ ”

وہ نا چاہتے ہوئیے بھی اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔

 اکثر ایسا ہو جاتا تھار خسار پھوپھو گھر سے باہر ہو تیں تو وہ خضر کے کھانے کی ذمہداری اس پر ڈال جاتی تھیں جس سے حناوے کو سخت کوفت ہوتی تھی۔

ہو نہہ رانا ہاؤس میں آتے ہوئے کیا موت پڑتی ہے

موصوف کو۔۔ اپنی اکٹر میں رہتا ہے۔۔

اسکا تصور ایک بار پھر حناوے کے چہرے کے زاویے بگاڑ گیا تھا۔

وہ کشادہ سیڑھیوں سے جن پر بیش قیمتی کارپٹ بچھا تھا خود سے باتیں کرتے نیچے اتر رہی تھی۔

امی آپکو پتا ہے پھو پھو گھر نہیں میں خضر  بھائی سی کو کھانے دینے جارہی ہوں۔۔ نیچے لاؤنج میں ھدی شہناز تائی کی سے کہہ رہی تھی۔

 بھائی کی کہتے ہوئیے اسکی زبان لڑکھڑائی تھی۔

میں جانتی ہوں۔۔ کھانا ملازمہ دے آئی  گی۔۔ تم میرے ساتھ چلو ،

 مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔ شہناز تائی  نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئیے کہا۔

 اچانک انکی نظر سیڑھیوں کے آخر میں کھڑی حناوے پر پڑی۔

 بلکہ حناوے دے آئیے گی۔۔ چلو تم میرے ساتھ وہ حناوے کو اونچی آواز میں سناتیں ھدی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی کی تھیں۔

ھدی نے پلٹ کر حناوے کو دیکھا دونوں کا موڈ بگڑ چکا تھا۔ وہ بے دلی سے چلتے ہوئی سے کچن تک آئی – جہاں ملازمہ صفائی کر رہی تھی۔

 ایک ٹرے میں کھانا گرم کر کے ڈال دو۔۔” حناوے نے حکم دیا تھا اور پھر کچن میں رکھا سٹول کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی ۔۔ آنکھیں اور انگلیاں ہاتھ میں پکڑے مو بائل پر پھسل رہی تھیں۔

بڑی بڑی آنکھوں میں چمک ابھری اور پھر وہ قہقہہ لگا کر ہنس دی۔۔ ملازمہ نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔

عجیب لڑکی تھی وہ گھنے بالوں کو جنہیں زبر دستی فولڈ کیا گیا تھا کچھ لٹیں نکل کر چہرے کے دونوں طرف جھول رہی تھیں۔

 وہ جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی منہ پھٹ اور بد تمیز بھی تھی_اس لئے رجو بس اسکے حکم کو خاموشی سے بنا سوال کے پورا کر دیتی تھی۔

کھانا لگ گیا ہے بی بی جی ۔۔” دس منٹ بعد رجو کی آواز گونجی۔ حناوے نے موبائل سے نظریں اٹھا کر ٹرے کی طرف دیکھا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی ۔

، اسے اٹھاؤ رخسار پھوپھو کے گھر لے کر جانا ہے۔۔

حناوے نے اٹھتے ہوئیے کہا۔

بلکہ ایک منٹ۔۔ تم رہنے دو۔۔ تم جاؤ میں خود ہی لے جاؤں گی۔۔” کچھ یاد آنے پر حناوے نے رجو سے کہا جو سر جھکا کر کچن سے نکل گئی تھی۔

اسے یاد آگیا تھا پچھلی بار وہ رجو کے ساتھ کھانا لے کر گئی تھی۔۔

 کھانے کی ٹرے رجو کے ہاتھ میں تھی جسے دیکھ کر ایس پی خضر حیات نے اسکی اچھی خاصی بے عزتی کی تھی۔

تمہارے ہاتھ نہیں ہیں۔۔ یا کام نہیں کرتے جو تم ایک چھوٹی سی ٹرے اٹھا کر نہیں لا سکتی۔۔ بلکہ اسکے لنی سے بھی ملازمہ ساتھ لائی ہو۔۔

حناوے تو اسکی بات سن کر دھک سے رہ گئی  تھی۔ مفت میں کھانے کو ملتا ہے تم لوگوں کو ہڈ حرام ہوئی پڑے ہو۔۔ ”

حناوے نے جھر جھری سی لی تھی۔ کیسا کاٹ دار لہجہ تھا اس شخص تھا۔ گلے سے ڈوپٹہ نکال کر اسے سر پھیلایا اور ٹرے اٹھا کر کچن سے باہر نکل گی

اب یہ دروازہ کیسے کھولوں۔۔؟؟”

 پانچ منٹ بعد وہ رخسار پھوپھو کے گھر میں موجود تھی۔

دروازه بند کر دیا تھا خضر نے شاید وہ جان گیا تھا کہ ان آفتوں میں سے کوئی  ناکوئی  ضرور آئے گی۔ اس نے ٹانگ کی مدد سے دروازہ کھولنا چاہا لیکن بے سود۔۔

 کچھ سوچ کر اس نے ٹرے نیچے رکھی اور گھنٹی کا بٹن دبایا۔۔ بلکہ دباتی رہی۔۔انگلی کو اٹھایا ہی نہیں ۔۔ ایک منٹ بعد جھٹکے سے دروازہ کھلا تھا۔

وہ سامنے ہی کھڑا تھا سرد تاثرات لئیے۔

یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔

کوئی کی ایسے بیل بجاتا ہے کسی کی۔۔ میں بہرہ نہیں ” ہوں سن سکتا ہوں۔۔

حناوے کو دیکھ کر مقابل کے جذبات بھی حناوے سے کچھ الگ نہیں تھے۔

وہ میں کھانالائی تھی۔۔۔” حناوے نے نیچے جھک کر ٹرے اٹھائی۔

، مجھے نہیں کھانا لے جاؤ ۔۔” وہ سخت ہوا۔

۔۔۔ کیا مطلب لے جاؤ ۔۔”

میں اتنی مشکل سے اپنے گھر سے لائی ہوں۔ نہیں کھانا تھا تو پہلے بتا دیتے۔۔

حناوے کا میٹر گھوما۔

خضر نے ایک نظر سامنے  رانا ہاؤس پر ڈالی۔۔ دنوں گھروں میں صرف ایک سڑک کا فاصلہ تھا۔

تم میری بیوی ہو جو میں تمہیں فون کر کے بتاتا آج مجھے ڈنر کرنا ہے یا نہیں کرنا

وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر سپاٹ لہجے میں پوچھ رہا تھا۔

اسکی بات سن کر حناوے کا دماغ بھک سے اڑا۔

اس نے گھور کر خضر کو دیکھا اور پھر اندر کی جانب قدم بڑھائیے۔

مجھے کوئی کی شوق نہیں تمہیں کھانے دینے کا۔۔ میں صرف پھوپھو کے کہنے پر آئی  ہوں۔۔

وہ اسکے پاس سے گزرتی اندر جا چکی تھی۔ خضر نے مڑ کر اسے دیکھا جواب ٹرے میز پر رکھ رہی تھی۔

 اسکی کسی بات کا اس آفت کی پر کالہ پر اثر نہیں ہوتا تھا۔

کھانا ہو تو کھا لینا گا نہیں کھانا تو تمہاری مرضی۔۔ ویسے بھی پولیس والوں کا پیٹ بھرا ہی رہتا ہے اور جتنا بھرا ہوتا ہے اتنی زیادہ انہیں بھوک لگتی ہے !!”

دوسرا جملہ اس نے آہستہ سے کہا تھا لیکن خضر حیات جو واقعی بہرہ نہیں تھا اسکی بات سن چکا تھا

 اور اب جبڑے بھینچے خود پر کنٹرول کر رہا تھا۔

تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی گی۔۔؟؟

پاس سے گزرتی حناوے کا بازود بوچنے کے بعد وہ غصے سے پوچھ رہا تھا۔ حناوے ایک دم ڈرگی  تھی۔

 وہ نہیں جانتی تھی رشوت خور کا لفظ خضر کو کسی گالی کی طرح لگتا تھا۔۔ اور وہ اچھی طرح سے جانتا تھا حناوے اسے اس لقب سے نواز چکی تھی۔

میرے بات کان کھول کر سن لو۔۔ اگر تم نے آئیندہ فضول میں زبان  چلائی کی یا میرے سامنے بد تمیزی کی یا اس طرح کی گندی سوچ والی باتیں کی  تو میں تمہیں بخشوں گا نہیں——

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئی سے غرایا تھا۔

 حناوے ایک پل کیل ٹی سے سہم گئی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا اسکی بات خضر کو اتنی بری لگے گی۔

“ اب دفع ہو جاو یہاں سے۔۔”

خضر نے ایک جھٹکے سے اسکا باز و چھوڑا تھا۔

پچھلے چار سالوں سے وہ اپنا فرض پوری ایمانداری سے نبھا رہا تھا۔ اور اس نے بہت جلدی ترقی کی تھی۔ اسکا باپ حیات رانا بھی پولیس کے شعبہ سے منسلک رہا تھا۔ اور اس پر رشوت خوری اور بہت سی دوسرے غلط کاموں کے الزامات لگائیں تھے۔

تنگ آکر حیات نے خود کشی کر لی تھی۔

خضر کو یہ باتیں سکون لینے نہیں دیتی تھیں۔ البتہ حناوے کو ان سب باتوں کا زیادہ علم نہیں تھا۔

 وہ اپنی لاپر واہی اور انجانے پن میں خضر کو کتنی تکلیف دے گئی  تھی وہ خود نہیں جانتی تھی

حناوے نے تیز دھڑکتے دل کے ساتھ ایک نظر خضر کو دیکھا جو وہاں سے جاچکا تھا اور پھر خشک ہو چکے لبوں زبان پھیرتی واپس بھاگ آئی تھی۔

خزاں کا دور تیری بے رخی کو کہتے ہیں

” !! بہار تیری توجہ کا نام ھے جاناں

وہ بے یقنی سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی جو ہر طرح سے شاندار نظر آرہا تھا۔ کتنی منتوں کے بعد اسکے ملنے کی خواہش پوری ہوئی کی تھی۔

“امن۔۔ “

سر گوشی نما آواز میں اسکا نام پکارا گیا تھا۔

امن نے چونک کر اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا تھا جو معصوم تھی خوبصورت اور کم سن تھی۔ جو اسکی وجاہت پر مر مٹی تھی۔

حسن عشق کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔۔

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے ایک پہلی نظر دل کے سبھی تار چھیڑ کر انسان کو ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ لیتی ہے کچھ ایسا ہی ہوا تھا اس لڑکی کے ساتھ بھی —–

لیکن وہ نہیں جانتی تھی جس شخص کے نام وہ اپنی ساری وفائیں اور اپنا آپ کرنے جارہی تھی اس نے وفا نہیں سیکھی تھی۔

وہ اسکی ایک پکار پر پاگلوں کی طرح بھاگتی چلی آئی  تھی۔۔ اور ایسی اندھی محبت عورت کیلے ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے—

اسکے امن پکارنے پر امن ملک اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔ کیا ہم شادی کرینگے ۔۔؟؟” وہ معصومیت بھر اسوال پوچھ رہی تھی۔

اور امن کا دل کیا وہ قہقہہ لگا کر ہنسے۔۔

اسے شادی کی کیا ضرورت تھی ____ اسے ان چاہی بیڑیوں میں بندھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔

اتنی جلدی کیا ہے شادی کی ؟

اور ان سب باتوں کو مت سوچو۔۔ اس وقت  سے لطف اٹھاؤ ۔۔ امن نے اپنے سامنے میز پر رکھی کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔

اس سے پہلے وہ کچھ اسکے موبائل پر بیل ہوئی  تھی۔ اس نے دیکھا تو حناوے از کالنگ اسکی سکرین پر چمک رہا تھا۔

نا چاہتے ہوئے بھی اس نے فون اٹھا لیا۔ جبکہ امن کافی پیتے ہوئے دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔

علیزے کہاں ہو تم؟؟

 میں کب سے تمہیں فون کر رہی ہوں۔۔ اتنے دن  ہوے تم سے بات نہیں ہوئے ۔۔ اور دو دنوں سے تم کالج بھی نہیں آئی سب ٹھیک ہے نا ؟؟

علیزے کے فون اٹھانے پر حناوے کی آواز ابھری وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔

ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔ تم سے کچھ دیر بعد بات کرتی ہوں ابھی مصروف ہوں۔۔

علیزے نے بنا اسکا جواب سنے فون بند کر دیا تھا۔ وہ اب پوری طرح سے امن کی طرف متوجہ تھی۔ یہ اسکی زندگی کا پہلا موقع تھا۔ جب وہ کسی سے ملنے آئی  تھی۔

جسم میں ہلکی سی لرزش تھی۔۔

اور اوپر سے امن کا اسے اسکی طرح توجہ نہ دینا علیزے کی جان نکال رہا تھا۔

من آپکو برا تو نہیں لگا؟؟ علیزے نے جھجھکتے ہوئیے پوچھا تھا۔

بالکل بھی نہیں ۔۔”

وہ خوشدلی سے کہہ رہا تھا۔۔ جبکہ اسے علیزے کی محبت سے کوئی  مطلب نہیں تھا۔۔ اسے اپنے مطلب سے سروکار تھا جو اسے آج کی ملاقات میں پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔

شاہ ویز گھر میں داخل ہوا تو کافی خاموشی چھائی کی تھی۔

اسے شہناز بیگم نے نمل کے حیدر آباد جانے کا بتایا تھا۔ تب سے اسے شدید قسم کا غصہ آیا ہوا تھا۔

اس نے نمل کو فون کیا تھا لیکن اس نے ایک بار بھی بات کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

وه لاؤنج میں داخل ہوا تھا تو سامنے ٹی وی آن تھا۔ اور ھدی صوفے پر بیٹھی تھی۔

ٹی وی پر کوئی کی انڈین گانا چل رہا تھا جسکی  ویڈیو قابل اعتراض تھی۔

یہ دیکھ کر شاہ ویز کا دماغ گھوما۔ تھوڑا آگے آیا تو ھدی صوفے پر ڈھیر سارے رسالے بکھرائے بیٹھی تھی۔

اور گھٹنوں پر ڈائری رکھے اس پر جھکے کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔

کیا ہو رہا ہے یہ ؟؟”

شاہ ویز کی دھاڑ پر ھدی ایک دم اچھلی۔ شاہ ویز نے میز پر رکھا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا اور اب ھدی کی طرف دیکھا جسکی روح فنا ہو چکی تھی۔

اور یہ سب رسالے۔۔ یہ پڑھتی ہو تم ؟ کورس کی کتابیں تم سے پڑھی نہیں  جاتیں ہر سال فیل ہو جاتی ہو اور انہیں لے کر بیٹھی ہو۔۔

 شاہ ویز نے جھٹکے سے ڈائری اسکے ہاتھ سے چھینی۔ اب کے صحیح معنوں میں ھدی کا دل بند ہوا تھا۔

اٹھاؤ یہ سب یہاں سے اور جلا و انہیں ۔۔ آئیندہ مجھے تم کورس کی کتابیں پڑھتی نظر آو ۔۔ سمجھ آئی ۔۔ وہ غصے سے پھنکار تا اسکی ڈائری ہاتھ میں پکڑے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

جبکہ ھدی کا نپتی ٹانگوں سے صوفے پر ڈھے گئی تھی۔

شاہ ویز کے جانے کے بعد حناوے کچن سے نکلی اور ڈرائی فروٹ کی پلیٹ لئیے ھدی کی جانب بڑھی۔۔

ہائی ہے۔۔ عشق کے قصے لگ گئیے بھائی  کے ہاتھ ۔

ھدی ٹھا کر تو تو گیو۔۔

حناوے کا قہقہہ گونجا تھا۔

میر ادل بند ہو جائیے گا حناوے۔۔ ہائے میری ڈائری۔۔” هدی گہرے صدمے میں تھی۔۔

 وہ جلدی سارے بکھرے رسالوں کو اکٹھا کر رہی تھی کہ کہیں وہ پھر نہ آجائے۔

مزہ آئیے گا۔۔”

حناوے اسکی حالت سے محظوظ ہو رہی تھی۔

میں نے ہر شعر کے نیچے خضر کا نام لکھا ہے۔۔ اگر بھائی  نے پڑھ لی تو۔۔

ھدی کو اپنی موت صاف دکھائی کی دے رہی تھی۔

تم سے کس نے کہا تھا کہ عشق کے قصے ڈائری میں لکھو ؟؟”

 حناوے چڑ کر بولی۔

اسے تو ویسے بھی خضر نہیں پسند تھا۔ اور ھدی کا ہر وقت خضر کے گیت گانا اسے زہر لگنے لگا تھا۔

ہائی سے اب نہیں بچو گی تم ۔۔

رانا ہاؤس کی دیوار و مری کی بہار و یاد رکھنا ایک سچی عاشق نے جان دی تھی_

عشق میں جان دے گئی  ھدی حسن رانا

حناوے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دبی دبی میں آواز میں اعلان کر رہی تھی

جبکہ ھدی کا صدمے سے برا حال تھا۔

ملک فارم ہاؤس میں امن اپنے دوستوں کے ساتھ موجود تھا۔ فضا میں عجیب سا خوف پھیلا تھا۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اپنے سامنے کھڑی لڑکی اور لڑکے کو دیکھ رہا تھا۔

لڑکی کم سن تھی خوبصورت تھی۔ لڑکا حلیے سے شریف خاندان کا لگتا تھا۔

میں نے اسے ہزار دفعہ کہا  کہ راحیلہ مان جاؤ میں تمہیں چاہتا ہوں۔۔ لیکن نہیں یہ سالی اس چشمش کے عشق میں گرفتار رہی۔۔

امن کا دوست قدیر اس لڑکی راحیلہ اور لڑکے کے ارد گرد گھومتے ہوئیے بتارہا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ امن ملک کے دوست قدیر ، جو کہ ایک انتہائی جاہل قسم کا آدمی تھا اسے راحیلہ پسند آگی  تھی۔ وہ اس سے ہر طرح کا تعلق قائم کرنا چاہتا تھا۔

جب راحیلہ نے اسے گھاس نہیں ڈالی اور اسکی پیشکش کو ٹھکرادیا تو قدیر امن کا سہارا لے کر دونوں کو اغوا کر والیا۔

اس وقت وہ دونوں امن کے فارم ہاؤس میں موجود تھے۔ جہاں صرف امن اور اسکے دوست ہی آجا سکتے تھے۔ ارحم بھی وہاں کم ہی آتا تھا۔

کیوں بھئی  چشمش ۔۔ محبوبہ پیاری یا جان ؟؟

امن نے کرسی سے ٹیک لگائے ہاتھ میں پکڑی گن سے کنپٹی کو سہلاتے ہوئے پوچھا۔ اس وقت وہ امن ملک کہیں سے نہیں لگ رہا تھا جسکی شخصیت پر لڑکیاں مر مٹتی تھیں۔

بلکہ وہ اس وقت اپنے خالص ظالم وڈیرے والے روپ میں تھا جنکا کام ہی دوسروں کی خوشیاں چھیننا تھا۔

کلف لگے سوٹ میں سیاہ چادر کو کندھوں پر پھیلائی ہے، ٹانگ پر ٹانگ جما کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی ہے وہ فنا کر دینے والی حد تک رعب دار لگ رہا تھا۔

آنکھوں میں عجیب سی سرد مہری تھی۔

اسکے دیکھنے کے انداز سے راحیلہ اور اویس دونوں کی جان تھر تھر کانپ رہی تھی۔

راحیلہ ملکوں کے گاؤں سے ہی تعلق رکھتی تھی۔ اور وہ امن ملک کو اچھے سے جانتی تھی۔ ان ملکوں نے رحم کرنا نہیں سیکھا تھا۔

راحیلہ کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ محنت اور مشکلوں سے وہ کالج تک پہنچ پای تھی جہاں اسے اویس مل گیا تھا۔

لیکن اسکی بد قسمتی کہ قدیر کی نظر اس پر پڑگئی ی۔ اور قدیر امن کا خاص دوست تھا۔ امن اسکے لئیے کسی کی  جان لے سکتا تھا۔

اویس تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔۔ ہم دونوں ایک ساتھ ہیں تمھیں ان  ظالموں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

راحیلہ نے اویس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا۔ کچھ دن بعد دونوں کی منگنی تھی۔ اویس راحیلہ کو لے کر شہر اسکی پسند کی انگوٹھی خرید نے آیا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ کوئی کی ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔

امن چاہتا تو انہیں حیدر آباد ہی ڈیرے پر لے جاتا لیکن اس سے بھی محفوظ جگہ اسکا یہ اسلام آباد والا فارم ہاؤس تھا۔

راحیلہ کے اویس  کا ہاتھ پکڑنے پر قدیر نے غصے سے راحیلہ کی طرف دیکھا اور پھر امن کو۔۔

ہاتھ چھوڑو۔۔

” امن نے قدیر کی حالت سمجھتے ہوئے راحیلہ سے کہا جو کافی دلیر نظر آرہی تھی۔ آخر گاؤں سے تھی۔

تم سے کہہ رہا ہوں چشمش ہاتھ چھوڑ ا سکا۔۔۔” امن کی بات کا جب راحیلہ پر اثر نہیں ہوا تو وہ اویس پر دھاڑا۔

اسکی دھاڑ پر وہاں موجود گارڈ اور اسکے دوست ڈرگے تھے۔ اویس نے ڈر کر اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن راحیلہ نے نہیں چھوڑا۔

امن کو اپنا خون خولتا محسوس ہوا۔ وہ نرمی کا برتاؤ کر رہا تھا اور اسکی نرمی ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا تھا۔

اس سے پہلے کوئی کی کچھ کہتا فائیر کی آواز گونجی تھی اور اسکے ساتھ ہی راحیلہ کی چیخ بلند ہوئی ۔

اثر نہیں ہوتا نا تم لوگوں کو۔۔” امن ایک جھٹکے سے سیدھا ہو کر بیٹھا۔

گولی اویس کی اس بازو میں لگی تھی جس کا ہاتھ راحیلہ نے پکڑ رکھا تھا۔

اویس ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا اور پھر نیچے گر گیا۔

اویس۔۔

اسکے بازو سے خون نکلتا دیکھ کر راحیلہ کے اوسان خطا ہوئیے تھا۔ اسے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی  تھی۔ وہ بے اختیار ہی اویس کی طرف بڑھی۔ لیکن قدیر نے آگے بڑھ کر اسے بازو سے دبوچ لیا۔

‏ لے جاؤ اسے یہ اس قابل نہیں قدیر کہ تم اس سے شادی کرو۔۔ عیش !! کرو۔۔ جاؤ ۔۔

امن نے زہر خند لہجے میں کہا تھا۔

نن۔۔ نہیں ۔۔”

اویس جو گھاس پر پڑا کراہ رہا تھا امن ملک کی بات سن کر ایک جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی۔

چیخومت۔۔ مجھے شور نہیں پسند ۔۔ ” ایک اور فائیر کی آواز گونجی اور گولی اولیس کے دوسرے کندھے پر لگی تھی۔ راحیلہ کو اپنا دل بندھ ہوتا محسوس ہوا تھا۔ اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔

قدیر اسے بازو سے دبوچے اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اللہ تم لوگوں کو پوچھے گا۔۔ ظالمو اللہ تم لوگوں نہیں چھوڑے گا۔۔” راحیلہ اب بری طرح چلارہی تھی۔

اسکا منہ بند کرواؤ قدیر ۔۔”

امن غصے سے چلایا تھا۔ اور قدیر نے چیختی چلاتی راحیلہ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔

نیچے پڑا اویس بری طرح سے تڑپ رہا تھا۔ خون ابل ابل کر نکل رہا تھا اسکی ساری آسمانی رنگ کی شرٹ خون سے تر ہو چکی تھی۔

اسکے سامنے قدیر اسکی محبوبہ کو لے کر جارہا تھا۔ اس سے زیادہ اذیت ناک بات کیا ہو سکتی تھی۔ جسم میں پھیلی تکلیف نے اویس کو چلانے پر مجبور کر دیا

تھا۔

مجھے شور نہیں پسند۔۔ ” ایک اور فائیر کی آواز گونجی اور گولی  اویس کی گردن میں لگی تھی۔ ہر طرف خاموشی چھاگئی ۔

امن اب اپنی جگہ پر کھڑا پستول سے دوبارہ اپنی کنپٹی سہلا رہا تھا۔ اسکی آنکھوں سے سرد پن چھلک رہا تھا۔

لے جاو اسے اور پھینک دو کہیں۔۔

کچھ دیر بعد امن نے آس پاس کھڑے گارڈز سے کہا تھا جو امن کی بات پر دم توڑتے اویس کی جانب بڑھے تھے۔

جبکہ امن پستول کو ہاتھ میں تھامے اپنی چادر درست کرتے پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔

وہ پر سکون تھا اس نے اپنے دوست کی خواہش پوری کر دی تھی۔ اسکے دل میں ملال تک نہیں تھا کہ اس نے کسی معصوم کی جان لے تھی

اندر کمرے میں پھیلی راحیلہ کی سسکیوں اور آہوں نے کسی مسیحا کو پکارا تھا لیکن ابھی کوئی کی مسیحا آتاد کھائی کی نہیں دے رہا جو انہیں ظالمو کے ظلم سے بچاتا۔

اس ظالم کا دل نہیں کا نپا تھا کسی کی زندگی چھینتے کسی کا گھر اجاڑتے کسی کی امیدیں توڑتے وہ ظالم بے رحم ہوا تھا،

محبتوں کو مارتے خواہشوں کو زندہ دفناتے اُس ظالم کا دل نہیں کا نپا تھا ایک لڑکی کی آبرو کو روندتے

اس ظالم کا دل نہیں کا نپا تھا

سکیوں کو سنتے، آہوں کو نظر انداز کرتے وہ ظالم آج سبھی حدیں توڑ گیا تھا

حناوے۔۔ حناوے آپی۔۔” امن کی آواز سن کر حناوے نے ہاتھ میں پکڑا چاکیلٹ کا ڈبہ تکیے کے نیچے چھپایا تھا۔

ھدی ابھی تک اپنی ڈائری کے صدمے میں بیٹھی آہ و بکا کر رہی تھی جبکہ منال اور سماب دونوں ھدی کے غم میں برابر کی شریک ہونے کی اداکاری کر رہی تھیں۔

ٹھاہ سے حناوے کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور امن اندر داخل ہوا۔ اسکا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔

کیا ہے۔۔ کیوں چیخ رہے ہو ؟؟”

حناوے نے ابروا چکا کر پوچھا۔

امن نے ایک نظر پریشان ھدی کو دیکھا اور پھر حناوے کو۔

میری چاکلیٹس کا ڈبہ کس نے چرایا ہے ؟؟

وہ تیکھی نظروں سے حناوے کو جانچتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

کونسی چاکلیٹس؟ س ؟؟

میں نے آج تک چاکلیٹس دیکھی بھی نہیں ۔۔ ” حناوے صاف مکر گئی ۔ ابھی دو دن پہلے امن کی سالگرہ تھی۔

خضر نے اسے اسکی فرمائش پر چاکلیٹس گفٹ کی تھیں۔ جن پر اب حناوے نے ہاتھ صاف کر لیا تھا۔

امن نے دو دن اپنے گفٹ کھولتے اور پھر خوشی خوشی سے انہیں دیکھتے گزارے تھے۔

چاکلیٹس اس نے بعد میں کھانے کیلئے رکھی تھیں۔ لیکن اسکی بد قسمتی شاید وہ بھول گیا تھا کہ اسکی بہن کچھ نہیں چھوڑتی تھی۔

شرافت سے میری چاکلیٹس دے دو مجھے –

خضر بھائی کی نے دی تھیں۔۔۔

امن روہانسی صورت لئے بول رہا تھا۔

دی ہو گی۔۔ لیکن میں نے نہیں دیکھی۔۔ اور تمہیں نظر نہیں آرہا یہ لڑکیوں کا کمرہ ہے۔۔ اور ھدی کتنی پریشان ہے۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔

حناوے نے اسے ڈپٹا۔

امن نے کھا جانے والی نظروں سے حناوے کو دیکھا تھا جو اس سے چار سال بڑی تھی لیکن کبھی کبھی امن کا دل کرتا تھا کہ وہ اسے قتل کر دے۔

میں خضر بھائی  کو بتاؤں گا اور تمہارے سارے کارنامے بھی۔۔”

امن اسے دھمکی دیتا واپس جا چکا تھا۔

اسکے جانے کے بعد حناوے نے وہ ڈبہ واپس نکالا اور قہقہہ لگا کر ہنس دی۔

لوھدی میڈم چاکلیٹس کھاؤ ۔۔ اور ڈائری کا غم بعد میں منالینا۔۔

” حناوے نے برسوں بعد بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئیے ھدی کو چاکلیٹ کی پیشکش کی جسے سوں سوں کرتی ھدی نے بنا کسی نخرے کے تھام لیا تھا۔

امن حناوے کے کمرے سے سیدھا خضر کے گھر آیا تھا۔

خضر بھائی !!!!!!!!!!۔

اس نے صدمے سے دوچار آواز میں خضر کو پکار ا

جوا بھی کھانا کھانے بیٹھا تھا۔

ارے امن ۔۔ آو ۔۔” خضر اسے دیکھ کر مسکرایا۔

امن را نا ہاوس میں سب سے چھوٹا تھا اسی لیے خضر کو وہ عزیز تھا۔

، خضر بھائی  مجھے ایک رپورٹ درج کروانی ہے۔۔ “

امن غم سے نڈھال بولا تھا۔ اسکی بات پر خضر کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری۔

وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ رپورٹ کس کے خلاف درج ہونی تھی لیکن وہ وجہ نہیں جانتا تھا۔

ر پورٹ لیکن کیوں کس کے خلاف ؟؟”

خضر نے نارمل لہجے میں پوچھا۔

رانا ہاؤس میں ایک ڈائین ہے۔۔ جو معصوم لوگوں کے بچے کھاتی ہے۔۔ ” اور آج میری بہت قیمتی چیز چرا کر کھاگی ۔۔

امن نے خضر کے پاس والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ آج خضر کی چھٹی تھی وہ گھر ہی تھا۔

اور وہ ڈائن حناوے رانا ہے۔۔ ہے نا ؟؟

خضر نے خود پر ضبط کرتے ہوئے تصدیق چاہی۔ وہ حناوے کے کارناموں سے ناک ناک اکتا چکا تھا۔

بس ایسا کیس کریں کہ اس ڈائین سے میری جان چھوٹ جائیے۔۔”

امن ابھی تک صدمے کے زیر اثر تھا۔

کیا تم دونوں ہر وقت حناوے کے پیچھے پڑے رہتے ہو ؟؟

رخسار پھو پھونے کچن سے نکلتے ہوئیے کہا۔

تم فکر نہ کر وامن ایک دن میں اس حناوے رانا عرف ڈائین کو ایسا قابو کرونگا نا پھر وہ کسی کو تنگ نہیں کرے گی۔۔ تب تک تم تھوڑا برداشت کر لو اسے۔۔

خضر نے امن کا کندھا تھپتھپا کر اسے تسلی دی تھی۔ اور امن اسکی بات سن کر بہل بھی گیا تھا۔

ٹھیک ہے پھر جلد ملاقات ہو گی ”

جہانزیب نے ڈیرے سے باہر نکلنے کے بعد کہا تھا۔ اسکی گاڑی باہر کھڑی تھی۔

ہمارے دو گاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے ارحم ۔۔ جب بھی حیدر آباد چکر لگا لیا کرو۔

۔ جہانزیب نے ارحم سے بغل گیر ہوتے ہوئی سے کہا۔

ان شاء اللہ اگلی بار میں ضرور آؤں گا۔۔ ” ارحم نے زیب کو یقین دلایا تھا جو اسکا بچپن کا دوست تھا۔

‏بالکل نہیں تم کافی دنوں سے حیدر آباد میں ہی ہو لیکن تم نے ایک بار پھر ملنے کی زحمت نہیں کی

وہ تو میں خود ہی آگیا ورنہ تم سے ملاقات کہاں ہوتی۔۔ جہانزیب شکوہ کر رہا تھا۔

اچھا یار معاف کر دواب۔۔ اگلی بار میں آؤں گا پہلے ۔۔”

More From Author

+ There are no comments

Add yours