Table of Contents
Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete
Episode# 15 & 16
حناوے از نور راجپوت
ارحم نے خوشدلی سے معذرت کی تھی جسے جہانزیب نے قبول بھی کر لیا تھا۔
اچانک جہانزیب کی نظر ڈیرے سے دوسری طرف جانے والے راستے پر پڑی تھی جہاں ایک کار کھڑی تھی۔ جس میں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ت حلیے سے وہ چاروں شہر کے لگتے تھے۔
” صائم اور کتنی دیر لگے گی ؟؟ داد و ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔۔
نمل نے اکتا کر صائم سے پوچھا جو کار کے انجن پر جھکا تھا۔ انہیں حیدر آباد آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ جس گاؤں کا انہیں ٹاسک ملا تھا وہاں پر اس ایک ہفتے میں ان چاروں کی ٹیم نے اچھا خاصا کام کیا تھا۔
نمل کو حیرت تھی کہ یہ سارے علاقہ ملک بہرام کا تھا لیکن ابھی تک کافی گاؤں ایسے تھے جہاں سکول تو دور کوئی ڈاکٹر بھی نہیں تھا۔
آج ہی ان کا کام ختم ہوا تھا اور نمل انہیں لے کر اپنے آبائی گاؤں جارہی تھی۔
یہ ایک مختصر راستہ تھا جو ملکوں کے گاؤں سے ہوتا ہوا راجپوتوں کے گاؤں جاتا تھا۔
صائم نے اسی طرف سے جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن انکی گاڑی میں کچھ مسلہ ہو گیا تھا۔
انجن کافی گرم ہو چکا ہے میں پانی لے کر آتا ہوں۔۔” صائم نے گاڑی سے خالی بوتل نکالتے ہوئے کہا اب اسکارخ ڈیرے کی طرف تھا جہاں جہانزہب اور ارحم کھڑے تھے۔
جہانزیب نے نمل کو پہچان لیا تھا۔ اس نے اسے ایک بار خیام رانا کی گاڑی میں انکے ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔
“السلام علیکم ! مجھے پانی چاہیے تھا ” صائم نے ان دونوں کے قریب آکر کہا تھا۔
و علیکم السلام ! بشیرے صاحب کو پانی دو۔ ”
ارحم نے سلام کا جواب دینے کے بعد ڈیرے میں کام کرتے ملازموں میں سے ایک کو آواز دی تھی
جو بھا گتا ہوا آیا تھا اور پھر صائم کو لے کر اندر کی
جانب بڑھ گیا۔
جانتے ہو وہ لڑکی کون ہے۔۔۔؟؟”
صائم کے جانے کے بعد زیب نے ارحم سے کہا۔
کون لڑکی ؟؟
ارحم نے اچنبھے سے پوچھا۔
وہ جو فون پر بات کر رہی ہے۔۔ ” زیب نے نمل کی طرف اشارہ کیا تھا۔
نہیں میں نہیں جانتا۔۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟؟
کمال ہے ملکوں اور راجپوتوں میں صلح کب سے ہوگئی ؟؟؟
راجپوتوں کی ہے جن سے تمہارے خاندان کی پرانی دشمنی ہے۔۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ وہ کتنے آرام سے ملکوں کے گاؤں میں گھوم رہی ہے۔۔
زیب کی بات سن کر ارحم پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
از لی خاندانی غصہ عود آیا تھا۔ اسے اتنا بتایا گیا تھا کہ راجپوت خاندان والوں سے انکی پرانی دشمنی تھی
کیونکہ خیام رانا نے اسکے دادا بہرام ملک کو دھوکا دیا تھا۔ اب وہ دھو کا کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔
ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔ پھر ملاقات ہو گی۔۔”
زیب آگ لگانے کا کام کر کے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر دوسرے راستے سے واپس جا چکا تھا۔
جبکہ ارحم جبڑے بھینچے نمل کی طرف بڑھا۔
کون ہو تم لوگ اور یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟ ارحم نے لڑکیوں کے پاس جا کر پوچھا تھا لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن اس سے پھر غصے کی آمیزش جھلک رہی تھی۔
وہ دراصل ہماری گاڑی خراب ہوگئی تھی اسی لئیے۔۔ ہمارا دوست پانی لینے گیا ہے اندرا بھی آتا ہو گا۔۔
نوین نے جواب دیا تھا جو نمل کی دوست ہونے کے ساتھ صائم کی منگیتر بھی تھی۔
ارحم کی سرد نگاہیں نمل کا جائیزہ لے رہی تھیں۔
وہ اس وقت نیلے رنگ کی جینز میں گھٹنوں تک آتی شرٹ پہنے ہوئے تھی۔ بالوں کو فولڈ کر کے جوڑا بنایا گیا تھا۔
ڈوپٹہ سر پر رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ سنبھل نہیں رہا تھا شاید اسے لینے کی عادت نہیں تھی۔
پاؤں جو گرز میں قید تھے۔ وہ حلیے سے کسی راجپوتوں کے گاؤں کے بھی نہیں لگتی تھی۔ ارحم نے محسوس کیا وہ کافی پر کشش تھی۔
تم لوگ جانتے ہو یہ کس کا گاؤں ہے ؟؟
” ارحم نے اب کی بار نمل کو سنانے کی کوشش کی جو موبائل میں مصروف تھی۔
اسکی لہجے میں چھپی عجیب سی آنچ محسوس کر کے نمل نے چونک کر ارحم کو دیکھا۔
کیا مطلب کس کا گاؤں ہے ؟؟ ہمیں گاؤں سے کیا لینا؟؟
اور یہاں کیا ایلین بستے ہیں جو آپ اس طرح سے بی ہیو کر رہے ہیں۔۔ نمل آگے بڑھ کر طنزیہ لہجے میں پوچھا تھا۔
اسکی بات سن کر ارحم کی پیشانی پر لکیریں مزید گہری ہوئی ہیں۔
یہ ملکوں کا گاؤں ہے اور آپ۔۔”
ارحم نے کچھ سخت الفاظ کہنے سے خود کو روکا۔
ملک انسان نہیں ہوتے کیا۔۔ یا آپکو ہم انسان نہیں لگ رہے ۔۔؟؟”
نمل کو پہلے ہی غصہ آیا ہوا تھا۔ حویلی میں سب انکا انتظار کر رہے تھے۔ دادو بار بار فون کر رہی تھیں۔
جب سے انہیں پتا چلا تھا کہ وہ ملکوں کے علاقہ میں ہے رحمن بھائی کی بھی اسے دو بار فون کر چکے تھے اور جلد حویلی پہنچنے کی تلقین کی تھی۔
جبکہ نمل کا ایک بار پھر ملکوں کا نام سن کر دماغ گھوما۔
محترمہ آپ جانتی نہیں شاید کہ ہم میں کیا دشمنی۔۔ “
دیکھیں ہمیں کچھ نہیں جاننا۔۔ اور بہتر ہو گا آپ ہماری پریشانی میں اضافہ مت کریں ہم یہاں مسافر ہیں یہاں رہنے نہیں آئے ہ۔۔ ہمارا ساتھی آتا ہی ہو گا ہم ابھی چلیں جائیں گے۔۔
نمل نے اسکی بات کاٹ کر دو ٹوک لہجے میں جواب دیا تھا۔ ارحم کا دماغ بھک سے اڑا۔
اسکا دل تو سامنے کھڑی لڑکی کو شوٹ کرنے کا کر رہا تھا لیکن اسے اسکی ماں نے یہ سب نے نہیں سکھایا تھا۔
اس لیے خود پر کنٹرول کرتا نمل کو سرد نگاہ سے گھورتا واپس ڈیرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اسکی اس نگاہ میں جو سر دین تھا اس نے نمل کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
شاہ ویز ہوتا تو اسکی اتنی زبان چلانے پر زبان کاٹ دیتا ارحم تو پھر بس گھور کر چلا گیا تھا۔
جیسے ہی ارحم ڈیرے میں داخل ہوا صائم باہر نکلا۔ وہ بنا کچھ کہے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
ملک صاحب یہ ہمارے دشمنوں کے مہمان ہیں انکا تعلق بھی راجپوتوں سے ہے۔۔ ملک صاحب آپ حکم دیں تو یہی دفنادوں انہیں ۔۔
انور نے ارحم کے پاس آکر سر جھکا کر کہا تھا۔ وہ ملکوں کا پرانا وفادار تھا۔
نہیں انور ۔۔ اور خبر دار آئندہ میرے سامنے ایسی بات کی۔۔ جاؤ اپنا کام کرو۔۔
ارحم نے غصے سے کہا تو انور سر جھکا کر چلا گیا۔
چھوٹے ملک ہوتے تو آج راجپوتوں کی حویلی میں ماتم کی صف بچھتی اور ملکوں کی حویلی میں جشن ہوتا لیکن یہ بڑے ملک تو بس۔۔
انور نے امن کو یاد کر کے دل ہی دل میں سوچا۔
کچھ دیر بعد گاڑی چلنے کی آواز آئی تھی اور وہ چاروں وہاں سے روانہ ہو چکے تھے۔ جبکہ ارحم گہری سوچا کا شکار ہو چکا تھا۔
شکر ہے بیٹا تم لوگ سلامتی سے یہاں پہنچ گئے ورنہ مجھے تو ڈر ہی لگا ہوا تھا۔۔ قدسیہ بانو نے نمل کی پیشانی پر پیار کرتے ہوئے کہا تھا۔
بس داد و گاڑی میں کچھ مسلہ ہو گیا تھا ورنہ ہم جلدی پہنچ جاتے اور ہم نے شارٹ کٹ لیا تھا۔۔ جو پاس ملکوں کا گاؤں وہاں سے جو راستہ گزرتا ادھر سے ہی آئے ہیں۔۔
نمل کھانے کھاتے ہوئے آرام سے بتارہی تھی۔ جبکہ قدسیہ بانوک دل ایک پل کیلیے رک سا گیا تھا۔
انہوں نے دہل کر نمل کو دیکھا جو اب سادہ سے شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ اسکی یہی اچھی عادت تھی
وہ جیسے بھی کپڑے پہنتی تھی حویلی آکر فورا شلوار قمیض زیب تن کر لیتی تھی۔
حویلی میں سارا دن گاؤں کی عورتوں کا آنا جانا لگارہتا تھا اور نمل نے کبھی انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
، لیکن تم لوگ وہاں سے کیوں آئے ۔۔ سیدھے راستے سے آجاتے۔۔”
قدسیہ بانو نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
داد و سب مجھے فون کر کے کہہ رہے تھے کہ جلدی حویلی پہنچو۔۔ بس اسی لے۔۔
کوئی مسلہ تو نہیں ہوا ۔۔ ؟؟
دادو نے گھبرا کر پوچھا۔
نہیں بس ایک اکھر قسم کے آدمی سے ملاقات ہوئی ۔۔ اور تو کچھ نہیں
نوین اور انعم جو نمل کی ٹیم میمبر تھیں خاموشی سے دادی پوتی کی باتیں سن رہی تھیں۔
جبکہ صائم کو مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا تھا۔
غیر مردوں کو حویلی کے زنانہ حصے کی طرف آنے کی اجازت نہیں تھی۔
چلو اللہ کا شکر ہے۔۔” قدسیہ بانو نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔
کیپٹن بخت را نا نہیں آئے نا آپ۔۔ ایک ہفتہ پہلے دو دن بعد آنے کا کہا تھا اور ابھی تک نہیں آئے۔۔؟؟
حناوے اب خفگی لئیے اپنے بڑے بھائی کی سے پوچھ رہی تھی جس نے جلد آنے کا وعدہ کیا تھا۔
جب بھی بخت را نا ہاؤس آتا تھا حناوے کی زندگی میں ایڈوانچر زمزید بڑھ جاتے تھے۔ شاہ بخت خود ایک شوخ طبیعت کا مالک تھا۔
آرمی میں ہونے کے باوجود وہ سنجیدہ کم ہی نظر آتا تھا۔ وہ تینوں بہن بھائی ایسے ہی تھے۔
، تمہیں نہیں پتا ہم قوم کے بیٹے ہیں ہمیں چھٹی نہیں ملتی۔۔”
بخت کی سنجیدہ سی آواز ابھری تھی۔ حناوے اسکے لہجے میں چھپی شرارت بھانپ گئی تھی۔
ہاں ہاں ساری قوم کو آپ نے ہی بچایا ہوا ہے۔۔ خبر دار مجھے آئندہ فون کیا مجھے کوئی کیا بات نہیں کرنی۔۔
وہ غصے سے کہتی فون بند کر چکی تھی جبکہ بخت کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
حیدر کارزلٹ آگیا تھا۔ اس نے اچھی پوزیشن سے سی ایس ایس کر لیا تھا۔ آج رانا ہاوس میں اسی خوشی میں فنکشن رکھا گیا تھا۔
نمل بھی شام کو واپس آگئی کی تھی۔ رحمن بھائی کی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ آئے ہوئیے تھے۔
ہادیہ آپی کو بھی بلایا گیا تھا۔ کچھ اور مہمان بھی آنے تھے۔
ایک نہیں تھا تو بخت نہیں تھا۔ حناوے عجیب سے احساسات سے دوچار تھی۔
اسکے بابا تو کب کے دنیا چھوڑ کر جاچکے تھے۔
میجر اغوان را نا شہید کار تبہ پا چکے تھے۔
امن چھوٹا تھا۔۔ اتنے سارے لوگوں کے درمیان حناوے کو اپنا آپ بے مول محسوس ہوا تھا۔
اسے آج احساس ہوا تھا بڑا بھائی کی باپ کی جگہ ہوتا ہے۔
اسکی بخت سے چاہے جتنی بھی دشمنی تھی لیکن آج وہ اسے بہت مس کر رہی تھی۔
کیا ہوا حناوے تم نے تیار نہیں ہونا؟؟
ھدی نے اسے یوں خاموش بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔ ورنہ وہ ایسے موقعوں پر سب سے زیادہ شور مچاتی تھی۔
ہو جاؤں گی۔۔ ابھی کافی وقت ہے۔۔”
ہاں بھئی۔۔ سب سے آخر میں تیار ہو کر آئے گی نیچے تا کہ سب بس حناوے رانا کو ہی دیکھیں۔۔ منال نے چوٹ کی تھی۔
ہاں اور تم سب جلتے ہی رہنا۔۔ ” وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی۔ منال کو جواب دیتی اپنی جون میں واپس لوٹ چکی تھی۔
ہیں تم بن ہم ویران پیاد
جیسے کھنڈر کوئی سنسان پیا
تجھے کھو کر کچھ بھی پاس نہیں
ہوا بہت میر انقصان پیا
بن تیرے کچھ منظور نہیں
تو ہے میرا کل جہان پیا
میری اپنی ذات بے معنی ہے
اب تو میری پہچان پیا
دو قدم بھی چلنا مشکل ہے
تیرے ہجر کیا ہلکان پیا
تیرے عشق میں
گھٹ گھٹ جیتے ہیں
کرومر نا تو آسان پیا
منال سب سے پہلے تیار ہو کر نیچے پہنچی تھی۔ دو دن ہو گے تھے شاہ ویز کو دیکھے ہوئے۔ اور اسے خبر ملی تھی کہ وہ نیچے موجود تھا۔ سب کے ساتھ—
گھبراتے دل پر قابو پاتے اس نے سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھائے۔
ما شاء اللہ آج تو لوگ خوب جچ رہے ہیں۔۔ “
وہ ابھی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب زبان نے اسے آگھیرا۔
کیا مسلہ ہے ؟ ؟؟
منال نے گھورتے ہوئی سے پوچھا۔ اسکے چہرے پر ناراضی تھی۔
زبان کی نظروں نے اوپر سے نیچے تک منال کا جائزہ لیا تھا۔
شرم نہیں آتی اپنے ہی گھر کی لڑکیوں کو ایسے تاڑتے ہوئی ہے ؟؟” منال نے اس خود کو گھورتا پا کر ڈ پٹا۔
ہاں۔”
زیان کا قہقہہ بلند ہوا۔
لڑکیوں کو نہیں میں تو بس منال کو تاڑ رہا ہوں۔۔” وہ آنکھوں میں شرارت لیے کہہ رہا تھا۔
بھی کچھ دیر میں حناوے آجائیے گی اسے تاڑنا۔۔ ” منال نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
تو بہ تو بہ ۔۔ حناوے رانا۔۔۔
وہ میری اوقات سے باہر کی چیز ہے۔۔ ہاں البتہ تم اچھی لگ رہی ہو بہت۔۔
زیان نے تعریف کی۔
وہ چاکلیٹ رنگ کے لباس میں نک سک ساتیار ہوئی پیاری لگ رہی تھی۔
،شکریہ۔۔ منال نے بنا پلٹے کا کہا تھا۔
سنو۔۔ ڈوپٹہ لے لو سر پر۔۔ آپکے ہونے والے بہنوئی یعنی میرے بڑے بھائی ۔۔۔
یعنی را نا ہاوس کے کھڑوس شاہ ویز اس وقت اپنی سرد لہجے اور عقابی نظروں کے ساتھ نیچے موجود ہیں زیان نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔
شاہ ویز کے نام منال کا دل دھڑکا تھا۔ اور پھر وہ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج کی طرف بڑھ گئی ۔
ہاں ڈوپٹہ لینا نہیں بھولی تھی۔
+ There are no comments
Add yours