Table of Contents
Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete
Episode # 17
حناوے از نور راجپوت
شاہ ویز بھائی نے میری ڈائری نہیں پڑھی ؟
ھدی کو یقین نہیں آرہا تھا۔
اگر پڑھ لی ہوتی نا تو یقین کرو تم یہاں مری کے جنگلات میں دفن ہو چکی ہوتی۔۔”
حناوے نے جواب دیا تھا۔
میں کیسی لگ رہی ہوں ؟؟
سماب نے گھوم گھوم کر خود کا آئینے میں جائزہ لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
اچھی لگ رہی ہو موٹی۔۔”
حناوے آج بھی باز نہیں آئی تھی۔
موٹی۔۔ کہا مجھے میں حیدر بھائی کو بتاؤں گی۔۔ ویسے بھی وہ آج کے اس فنکشن کے خصوصی مہمان ہیں۔۔”
سماب نے جیسے دھمکی لگائی تھی۔
نہیں تم اچھی لگ رہی ہو۔۔ اور موٹی تو بالکل بھی نہیں ” حیدر کا نام سن کر حناوے نے زبر دستی تعریف کی۔
سماب دانتوں کی نمائش کرتی کمرے سے نکل گئی تھی۔ اسکے جانے کے بعد حناوے نے خود کا آئینے میں جائزہ لیا تھا۔
سیاہ رنگ کی زمین کو چھوتی گاؤن نما میکسی پہنے جس پر بیچ رنگ کا نفاست سے کام کیا گیا تھا وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
میکسی کا گلہ بند تھا۔ اور بازو فل تھے۔
کانوں میں جھمکے پہنے۔ بالوں کا اونچا جوڑا
وہ بلا شبہ باقی سب سے الگ لگ رہی تھی۔
جس سے کچھ لیٹین نکل کر چہرے کے دونوں جانب گالوں کو چھو رہی تھیں۔
ایک بار پھر بخت کے خیال نے اسکی آنکھوں کو گلابی کیا۔
خود کو سنبھالتی وہ ھدی کی آواز پر کمرے سے باہر نکل گئی
یہ دل نایاب ہے ملتا نہیں ہے
” یہ تیرے کان کا جھمکا نہیں ہے
بچالوں دے کے سر دستار اپنی
یہ سودا اس قدر مہنگا نہیں ہے
مجھے اب آئینہ کہتا ہے ہر پل
ترا چہرہ ترا چہرہ نہیں ہے
کسی نے بے ثمر پیروں پہ شاید
کبھی پتھر کوئی پھینکا نہیں ہے
حناوے ھدی کے ساتھ کسی بات پر ہنستی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
شاہ ویز جو کسی کام حیدر کے ساتھ اندر آیا تھا جناوے پر نظر پڑنے پر وہ ٹھٹکا۔
دل ایک پل کیلئے عجیب سے احساسات سے دوچار ہوا تھا۔
وہ ایک پل کیلئے رک گیا اور پھر ھدی کو اسکے ساتھ دیکھ کر خود کو ڈپٹا۔
وہ اسکی بہن جیسی تھی اور ہمیشہ شاہ ویز نے نمل کے علاوہ رانا ہاوس کی سبھی لڑکیوں کو اپنی بہنیں ہی سمجھا تھا۔
لیکن یہ اچانک کیا ہوا تھا۔ پہلا پتھر پڑا تھا شاید۔
وہ سر جھٹکتا دوبارہ حیدر کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔
مہمانوں کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا جسے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
حیدرآباد میں جہاں گرمی پڑرہی تھی مری میں سردی کا آغاز ہو اتھا لیکن ابھی شدت کم تھی
باقی لڑکیاں اور خواتین لاونج میں جمع تھیں۔
حناوے نے جیسے ہی لاونج میں قدم رکھا وہ حیرت سے دنگ رہ گئی تھی۔
سامنے صوفے پر خضر کے ساتھ آرمی یونیفارم پہنے بخت مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا تھا۔ حناوے کو دیکھ کر وہیں سے ہاتھ ہلا کر ہائے کیا تھا۔
حناوے بے اختیار ہی بخت کی جانب بڑھی تھی۔
بخت اسے اپنی جانب آتے دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
بہت برے ہیں آپ مسٹر شاہ بخت ۔۔”
حناوے نے بخت کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔
جانتا ہوں لیکن میری بہن بہت اچھی ہے۔۔”
بخت نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔
حناوے جذباتی ہو گئی تھی۔ بخت کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ کیا محسوس کر رہی بتا نہیں سکتی تھی۔
میں نے بہت مس کیا آپکو ۔۔ “
حنادے نے نم آنکھوں سے کہا۔ لائونج میں سبھی افراد دونوں بہن بھائیوں کا پیار دیکھ رہے تھے۔
ڈرامے شروع۔۔”
خضر ہلکا سا بڑ بڑایا تھا۔
لیکن تمہارا میک اپ خراب ہو رہا ہے حناوے….
بخت نے اسکی سیاہ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر شرارت سے کہا۔ اسے حناوے کا یوں جذباتی ہو نا پاگل پن لگا تھا۔
فاریہ بیگم خاموشی سے صوفے پر بیٹھیں اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔ میجر اغوان رانا کی یاد سے انکھیں ہلکی نم ہوئی تھیں۔
لیکن پھر بخت کو انہی کے روپ میں دیکھ کر دل فخر سے بھر گیا تھا۔
یہ کا جل نہیں مسکارہ ہے۔۔”
حناوے نے روتے ہوئے چوٹ کی اور پھر میز پر رکھے ڈبے سے ٹشو نکال کر آنکھیں صاف کرنے کی کوشش کی۔
دونوں بہن بھائیوں کے سین نے سب کو جذباتی کر دیا تھا۔
حناوے نے روتے ہوئیے چوٹ کی اور پھر میز پر رکھے ڈبے سے ٹشو نکال کر آنکھیں صاف کرنے کی کوشش کی۔
دونوں بہن بھائی کے سین نے سب کو جذباتی کر دیا تھا۔
یہ رہا چور۔۔ حضر بھائی کی۔۔ یہ حنا وی رانا چور۔۔ اس نے میری چاکلیٹس چرائی ہیں۔۔ یہ دیکھیں یہ ڈبہ انکی الماری سے ملا۔۔ آدھی کھا گٹی کی یہ اور آدھی بچی ہیں۔۔
امن کسی طوفان کی طرح لاونج میں داخل ہوا تھا اور پھر خضر کو دیکھ کر اسے بولنے والی چابی لگی۔
اسے گرفتار کر لیا جائیے۔۔” وہ کافی غصے میں تھا۔ حناوے یوں سب کے سامنے اپنی چوری پکڑی جانے پر کافی شرمندہ ہوئی کی
اور خضر کے گھور کے دیکھنے پر گڑ بڑاگی تھی۔
جلدی سے گرفتار کر لیں بس اسے۔۔” امن نروٹھے پن سے بولا تھا وہ خضر کے ساتھ چپک کر بیٹھ گیا تھا۔
رحمن بھائی میرے وکیل ہیں اور آپ ایس پی یعنی پولیس والے
چور سارے ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے۔۔ بس آج اسے سزاملنی چاہیے۔
امن ابھی تک اپنی چاکلیٹس کے صدمے میں تھا۔ اسکی باتوں نے سب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلا دی تھی۔
جب تک میں ہوں میری بہن کو کوئی ایس پی خضر حیات رانا گرفتار نہیں کر سکتا اور ناکوئی کی ایڈووکیٹ رحمن رانا اس پر کیس کر سکتا ہے۔۔
بخت نے باز و حناوے کے گرد پھیلا کر کہا تھا جو شرمندہ سی بیٹھی تھی۔ وہ اسکے شکوے دور کرنا چاہتا تھا۔
بھائی کی آپ اسکا ساتھ مت دیں یہ ڈائین ہے آپکو نہیں پتا۔۔ “
امن بے بسی سے چلایا تھا۔ اسے بخت کا حناوے کا ساتھ دینا اچھا نہیں لگا تھا۔ امن کی بات پر حناوے نے منہ چڑا کر اسے مزید جلا یا تھا۔
امن بیٹا تم فکر نہیں کرو بس کچھ وقت اور پھر حناوے سے تمہاری جان چھوٹ جائیے گی ہم اسے ہمیشہ کیلے گرفتار کر لیں گے۔۔
رخسار پھو پھونے پر اسرار سے لہجے میں کہا تھا۔
انکی بات پر حناوے نے توجہ نہیں دی تھی وہ بخت کی طرف متوجہ تھی جبکہ انکی بات سن کر خضر نے چونک کر انہیں دیکھا تھا۔
جسکے چہرے پر حیرانگی تھی۔۔ اور ایسی ہی حیرت ھدی کے چہرے پر بھی تھی۔ جو کبھی رخسار پھو پھو کبھی حناوے تو کبھی خضر کو دیکھ رہی تھی۔
رخسار پھوپھو کی بات پر اسکا دل ڈوب کر ابھر ا تھا۔ جبکہ انکی بات کا کچھ مطلب سمجھ کر خضر کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
بخت تم جلدی سے چینج کر کے آجاؤ باہر ہال میں سب ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔۔ شاہ ویز اور حید ر دوبارہ لاؤنج میں واپس آگیے تھے۔ حناوے نے ایک نظر حیدر کو دیکھا تھا جسکے چہرے پر فتح کی خوشی تھی۔ اسکی سب سے بڑی خواہش پوری ہو چکی تھی۔ وہ کافی خوش تھا اور اچھا بھی لگ رہا تھا۔
میں ابھی آتا ہوں۔۔”
بخت حناوے کو دلاسہ دیتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
شاہ ویز کی نظر لاؤنج کے دوسرے حصے میں گئی تھی جہاں اسکے بابا، نمل کے بابا نمل اور قدسیہ بانو یعنی داد و بیٹھی تھیں۔ نمل کو دیکھ کر شاہ ویز کی تیوری چڑھی۔ وہ سرخ اور سیاہ رنگ کے لباس میں کندھوں پر بال بکھرائے سنجیدہ سی رحمن بھائی کی سے گفتگو میں مگن تھی۔ اسکی ذات میں ایک وقار تھا جو اسے رانا ہاوس کی باقی لڑکیوں سے الگ بناتا تھا۔
خیام رانا کی ساری فیملی اس وقت رانا ہاؤس میں موجود تھی۔ صرف دو لوگ نہیں تھے حناوے کے بابا اور سماب کی ماں۔۔ جو دونوں اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔
انکے اپنے خاندان میں اتنے افراد تھے کہ باہر سے کسی اور آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
آپ لوگ یہاں ہیں۔۔ باہر دادا جی بلا رہے ہیں آجائیں سبھی مہمان آچکے ہیں۔۔ شاہ ویز نے بڑوں کے درمیان جا کر کہا تھا۔ نمل کو اس نے دیکھنے سے گریز کیا تھا۔
اسکی بات سن کر سارے مرد لاؤنج سے باہر نکل گئیے تھے۔ بخت کے آنے سے حناوے کا مزاج خوشگوار ہو گیا تھا۔
کہتے ہیں بیٹی گھر سے بھاگ جائے یا غائب ہو جائے تو ماں باپ کو مر جانا چاہیے بلکہ وہ تو جیتے جی مرجاتے ہیں۔
پورے گھر میں موت جیسی خاموشی چھائی تھی۔ البتہ آس پاس کے گھروں بھنبھناتی سر گوشیاں جاری تھی۔
دو دن ہو گئیے تھے راحیلہ گھر نہیں آئی تھی۔ راحیلہ کی اماں کی آنکھیں رو رو کر سو جن کا شکار ہو چکی تھیں۔
کچے پکے صحن میں وہ چار پائی پر بیٹھیں اسے کوس رہی تھیں۔ راحیلہ کے ابا کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔
اس لئے کہتا تھا میں کہ اسے شہر مت بھیجو پڑھنے کیلئے لیکن نہیں اب دیکھ لیا نتیجہ ۔۔ پورا گاؤں کیسی کیسی باتیں کر رہا ہے۔۔
نہ میرا دل نہیں مانتا۔۔ میری راحیلہ دھی ایسی نہیں ہے۔۔ ” راحیلہ کے ابانم لہجے کے ساتھ مشکل سے بول پائے تھے۔
اس سے پہلے راحیلہ کا بھائی کی مزید کچھ کہتا صحن کا دروازہ بجا تھا۔
راحیلہ کا بھائی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر گاؤں کے کچھ بچے کھڑے تھے۔ جنکے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔
کیا ہوا؟؟ ،
اس نے غصے سے پوچھا۔
وو۔۔ وہ جی۔۔ وہاں راحیلہ باجی۔۔” ایک لڑکے نے مشکل سے لفظ ادا کیے تھے۔ اسکے چہرے پر خوف پھیلا تھا۔ راحیلہ کا نام سن کر اسکا باپ اور بھائی گاؤں میں آنے جانے والے راستے کی طرف بھاگے۔
اگر کسی خاندان کیلے قیامت کا آنا اسے کہتے ہیں تو واقعی قیامت گاؤں کے آدھے کچے آدھے پکے راستے پر راحیلہ پھٹے کپڑوں میں بے ہوش پڑی تھی۔ اسک حالت دیکھنے والی نہیں تھی۔
رحیلہ پتر ۔۔” راحیلہ کا باپ تڑپ کر اسکی جانب بھاگا تھا۔
اسکی سانسیں چل رہی تھیں لیکن حالت بہت خراب تھی۔ پورا گاؤں وہاں اکٹھا ہو گیا تھا۔
راحیلہ کے باپ نے اپنے کندھے پر رکھا کپڑا اتار کر اپنی بیٹی کے اوپر ڈالا تھا۔
شام کی سنہری روشنی آسمان پر پھیلی تھی۔ راحیلہ کا بھائی بہن کی یہ حالت دیکھ کر پتھر کا ہو گیا تھا۔
بچوں کا کہنا تھا کہ ایک بڑی سی گاڑی آئی تھی اور اس میں موجود لوگ راحیلہ کو ادھر پھینک کر چلے گئی ہے۔
راحیلہ کی ماں سمیت محلے کی عور تیں راحیلہ کی حالت دیکھ کر منہ پر کپڑا رکھ کر رودی تھیں۔
سورج غروب ہوا، شام دھیرے دھیرے رات میں بدلی اور راحیلہ کی زندگی میں ہمیشہ کیلے اندھیرہ چھا گیا۔
ڈھلی جو شام نظر سے اتر گیا سورج
ہوا کسی نے اڑادی کہ مر گیا سورج
سحر ہوئی نہیں کب سے گزشتہ شام کے بعد
غروب ہو کہ نہ جانے کدھر گیا سورج
سجی ہوئی ہے ستاروں کی انجمن اے دل
کہ پارہ پارہ فلک پر بکھر گیا سورج
لگا کہ کھینچ لی اس نے زمین پیروں سے
لگا کہ تلووں کو چھو کر گزر گیا سورج
یہ کیسا جلوہ کے بینائی لٹ گئی میری
کہ میری آنکھ کے اندر اتر گیا سورج
چھپا تھا مصلحتاً شام سے سمیٹ کے
نور مہیب رات یہ سمجھی کہ ڈر گیا سورج
شفق تمام لہور نگ ہو گیا لیکن
ہجوم غم سے بہت پر جگر گیا سورج
ہمیشہ تاج کا اقبال یوں بلند رہا
جدھر جدھر نظر آیا ادھر گیا سورج
+ There are no comments
Add yours