Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

1 min read

Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Episode No 18

حناوے از نور راجپوت 

وقت کا کام تھا گزر نا وقت دھیرے دھیرے گزر رہا تھا۔ رانا ہاؤس کی لڑکیوں کی زندگی میں کوئی  خاص تبدیلی نہیں آئی  تھی۔

شا ویز اور نمل کے درمیان سرد جنگ جاری تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر انجان بن جاتے تھے۔

 

وہ چاروں حناوے کے کمرے میں لحافوں میں دبکی

 پاکستانی فلم مایا میر  دیکھ رہی تھیں۔

 

یہ ایمان علی طوائف کے روپ میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہے ” نا۔۔۔؟؟

 

 حناوے نے غور سے ہیروئین کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

 

کاش مجھے بھی ڈانس آتا۔۔ “

 

 اب کی بار حناوے کے لہجے میں حسرت تھی۔ اسے ایمان علی کا یہ کردار بہت پسند آیا تھا۔ اور اسکے دل میں ایسا حلیہ اپنانے کی خواہش ابھری تھی۔

 

وہ سب تو ٹھیک ہے۔۔ آج چائے بنانے کی  تمہاری ہے۔۔ جاؤ بناکر لاؤ۔۔

 

ھدی ہی نے اسے یاد دلایا۔ حناوے کا موڈ بگڑا۔

 

میں نہیں جارہی بہت ٹھنڈ ہے۔۔” حناوے نے صاف انکار کیا۔

 

جانا تو پڑے گا تمہیں یا ہم سمجھ لیں کہ تم اپنا کام بالکل نہیں کر سکتی اور ناہی  وعدہ نبھا سکتی ہو۔۔

 

 کیونکہ ہم نے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ سب اپنی اپنی باری پر بنا کسی چوں چراں کے چائے بنا کر لائی گی۔۔ منال نے یاد دہانی کرنالازمی سمجھا۔

 

 جارہی ہوں۔۔ میں اپنی بات سے مکرتی نہیں۔۔ “

 

حناوے نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا تھا اور غصے سے بیڈ سے نیچے اتری

 

 

 

دھیان سے جانا آج شاہ و یز بھائی کی گھر پر ہی ہیں۔۔ یہ ناہو کلاس لگ جائیے۔۔ سماب کو یاد آیا تھا۔

 

ڈرتی نہیں میں اس دجال سے۔۔

حناوے نے شاہ ویز کا نام دجال رکھا ہوا تھا۔

 

‏ وہ گرم چادر کو اچھی طرح خود کے گرد لپیٹتی کمرے سے باہر نکلی تھی۔

 

 دبے پاوں وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ سیڑھیوں کے نیچے ہی شاہ ویز کا کمرہ تھا جو سب سے بڑا تھا۔

 

 وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتی کچن کی جانب بڑھ گئی کی تھی۔ مری کی سردی کی شدت میں اچانک ہی اضافہ ہوا تھا—

 

دل ہی دل میں ان تینوں کو گالیاں نکالتی وہ چائے بنانے لگی۔ اس وقت ملازمہ کو اٹھانا یعنی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔

 

اور ان چاروں کا رات کو ٹھونسے بنا گزارا نہیں تھا۔ اس لئیے نا چاہتے خود ہی کچھ نا کچھ بنا لیتی تھیں۔

 

واہ رات بارہ بجے بھی پارٹی کی جارہی ہے۔۔؟؟

 

 کچھ دیر بعد حناوے چائے کپ میں انڈھیل رہی تھی جب اچانک ابھرنے والی آواز پر وہ اچھلی۔

 

پیچھے مڑ کر دیکھا تو خضر کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔

 

تنت۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟ اسے دیکھ کر حناوے کا رنگ پھیکا پڑا۔

 

 

کیوں میں یہاں نہیں آسکتا ؟؟

 

وہ عام سے لہجے میں پوچھتا کچن کے اندر آیا۔

 

زمینوں کے سلسلے خضر شاہ ویز سے ملنے آیا تھا۔ انکی حیدر آبا والی زمین کا کچھ مسلہ چل رہا تھا۔

 

 کافی دیر وہ دونوں اس مسلے کو ڈسکس کرتے رہے تھے۔ خضر کو پانی کی طلب ہوئی کی تو وہ خود ہی لینے آگیا لیکن کچن میں آفت کو دیکھ کر اسکی تیوری چڑھی۔

 

حیات ہاؤس چھوٹا پڑ گیا جو یہاں آگے ۔۔۔؟؟

 

یا پھر وہاں مجرم قید ہیں؟؟

 

حناوے بھی چوٹ کرنے سے باز نہیں آئی تھی۔

 

کچھ خطرناک مجرموں کی تاک میں ہوں وہ پکڑے جائی میں بس۔۔ ایسی  جیل میں ڈالوں گا کہ ساری عمر ایڑیاں رگڑتے رہیں گے

لیکن باہر نہیں نکل پائیں گے۔۔

 

خضر حیات کو نسا کم تھا۔

 

اچھا سنو۔۔ یہ دو کپ چائے شاہ ویز کے کمرے میں پہنچا دو۔۔ ہم  ضروری کام کر رہے ہیں۔۔ تم نے بنا ہی لی ہے تو ہمارا بھی فائدہ ہو جائیے گا۔۔

 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی خضر حکم دیتا چلا گیا جبکہ حناوے غصے سے لال پیلی ہو گی تھی۔

 

 

چائے دینے جانا یعنی ایک تو شاہ ویز کی ڈانٹ سننا اور اوپر سے دوبارہ چائے بنانا۔۔ حناوے کا دل کیا کہ وہ کپ اٹھا کر خضر کے سر میں مارے۔۔

 

کچھ دیر بعد وہ خود پر ضبط کرتی شاہ ویز کے کمرے میں چائے دینے گئی تھی۔

 

خضر سر جھکائے ایک نقشہ سامنے پھیلائے بیٹھا تھا۔

 

 وہ اچھے سے جانتا تھا کہ حناوے کی اس وقت کیا حالت ہو رہی تھی۔

 

، تم سوئی نہیں ابھی تک ؟؟ حناوے کو دیکھ کر شاہ ویز نے پوچھا۔

 

ن۔۔۔ نہیں وہ خضر بھا۔۔ بھائی کی نے مجھے چائے بنانے کا کہا اس  لئیے ۔۔

 

حناوے نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔ شاہ ویز گہری نظروں سے حناوے کو دیکھا تھا۔

 

ٹھیک ہے جاؤ ۔۔” شاہ ویز کے کہنے پر وہ فورا کمرے سے باہر نکلی تھی جبکہ خضر نے مشکل سے اپنی مسکراہٹ پر ضبط کیا —-

 

 

 

میں بتارہی ہوں یہ رشوت خور ایس پی مر جائے گا کسی دن حناوے رانا کے ہاتھوں۔۔ حناوے کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ غصے میں کمرے میں ٹہل رہی تھی۔

 

ہائے خضر آئے ہوئے تھے ۔۔ تم بھلا مجھے بلا لیتی ۔۔ “

 ھدی نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ حناوے کی تیوری مزید چڑھی۔

 

اگر اتنا پیارا ہے تو پلو میں چھپالو اسے۔۔ میرے ہاتھ کی چائے پیتا ہے۔۔

اب دیکھنا میں اسے ایسی چائے پلاؤں گی۔۔۔ ساری عمر یاد رکھے گا۔۔

 

حناوے کی آنکھوں میں شرارت چمکی۔ اور چہرے پر پر اسرار مسکراہٹ پھیل گئی ۔

 

 

تم جو بھی کر لو۔۔ خضر تمہارے عتاب کا شکار ہونے والوں میں سے نہیں۔۔ ھدی نے بے نیازی سے کہا۔

 

اب تم دیکھنا بس۔۔” حناوے پر عزم لہجے میں کہتی بیڈ پر بیٹھی تھی۔

 

چھوڑو نا یار کیا موڈ خراب کرنا۔۔”

منال نے اسے پر سکون کرنے کی کوشش کی۔

 

ہر گز نہیں۔۔ اس نے جان بوجھ کر مجھے شاہ ویز بھائی کی کے سامنے حاضر کیا تا کہ مجھے ڈانٹ پڑے۔۔

 

وہ تو شکر انہوں نے ڈانٹا نہیں۔۔ لیکن میں اسے نہیں بخشنے والی۔۔

 

وہ حناوے ہی کیا جو مان جائیے۔

 

اور اگر تم اپنے پلان میں کامیاب نہیں ہوئی  تو۔۔؟؟” ھدی نے ابر واچکا کر پوچھا۔

 

تو جو تم لوگ کہو گے حناوے وہی کرے گی۔۔

 

” حناوے نے بات کو اپنی انا کا مسلہ بنا لیا تھا۔

سوچ لو۔۔

ھدی نے وار ننگ دینے والے لہجے میں کہا۔

جو کچھ کرنے سے پہلے سوچے وہ حناوے رانا نہیں ۔۔ اب جاؤ مجھے سونا ہے۔۔

حناوے کا موڈ کافی بگڑ چکا تھا۔

وہ تینوں اسکے بیڈ سے اٹھیں۔

ھدی جانتی تھی کہ اگر حناوے آفت تھی تو خضر آسانی سے اس آفت کے ہاتھ نہیں آنے والا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا ہونے والا تھا۔

ان تینوں کے جانے کے بعد حناوے نے صبح چھ بجے کا الارم لگایا اور خضر کو کوستے ہوئے سوگی۔

صبح پہلی الارم رنگ پر حناوے کی آنکھیں پٹ سے کھلی تھیں۔ وہ جلدی بیڈ سے نیچے اتری۔

فریش ہونے کے بعد وہ اپنا سویٹر پہن کر اور گرم شال لیپٹ کر کمرے سے باہر نکلی تھی۔ سیدھا فاریہ بیگم یعنی اپنی ماں کے کمرے میں گنی جو کچن میں امن کیلئے ناشتہ بنارہی تھیں۔

اسکے سکول جانے میں تھوڑا ہی وقت تھا۔ کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد ایک دراز سے اسے مطلوبہ چیز مل گئی کی تھی۔

وہ اسے چادر کے نیچے چھپاتی باہر نکلی اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ آنکھوں میں ابھی تک نیند تھی۔ اسے اتنی صبح اٹھنے کی عادت نہیں تھی۔

حناوے۔۔ کہاں جارہی ہو تم ۔۔؟؟” لاونج سے گزرتی حناوے پر فاریہ بیگم کی نظر پڑی تھی۔ وہ حناوے کے اتنی صبح اٹھنے پر حیران رہ گئی  تھیں۔

وہ امی میں واک کرنے جارہی ہوں۔۔”

حناوے نے ذہن میں آنے والا پہلا جھوٹ بولا۔

“واک۔۔ اور تم۔۔؟؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا ؟؟

جی جی۔۔ میں ٹھیک ہوں بس ایسے ہی کھلی ہوا میں واک کرنے کا دل کر رہا تھا۔۔

حناوے جواب دیتی لاؤنج کا دروازہ پار کر چکی تھی۔

یا اللہ اس لڑکی کو ہدایات دے۔۔ ”

فاریہ بیگم نے دل سے دعا مانگی تھی۔

ابھی حناوے میں لان میں پہنچی تھی جب اسے گیٹ کھول کر حید ر اندر آتا دکھائی  دیا۔ وہ جاگنگ سے واپس آیا تھا۔

اوے آفت۔۔ تم اتنی صبح صبح ۔۔ لگتا مری کی خیر نہیں ۔۔

” اس نے حناوے کو چھیڑا۔

، میں نے سوچا میں بھی تھوڑا کھلی فضا میں سانس لے لوں۔۔”

حناوے نے حتی المقدور لہجے کو نرم رکھنے کی کوشش کی تھی۔
کم از کم وہ حیدر کے سامنے نارمل رہنا چاہتی تھی۔

مجھے کہہ دیتی میں لے جاتا صبح پانچ بجے۔۔”
حیدر نے شرارت سے کہا وہ جانتا تھا کہ حناوے کو واک میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ناہی صبح سویرے اٹھنے میں۔۔

یقینا اسکے ذہن میں کچھ چل رہا تھا۔

کل سے۔۔۔” حناوے زبر دستی چہرے پر مسکراہٹ سجاتی آگے بڑھ گئی تھی۔

اللہ خیر کرے آج تو ۔۔”

حیدر نے اسے جاتے دیکھ کر دل میں سوچا تھا۔ اسے حناوے بالکل پاگل لگتی تھی۔

گیٹ سے باہر نکل کر سڑک پار کرنے کے بعد وہ حیات ہاؤس میں داخل ہوئی  تھی اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتی اندر کی جانب بڑھی۔

ارے حناوے تم ۔۔؟؟

رخسار پھوپھو صبح صبح اسے اپنے گھر میں دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی  تھیں۔

جی پھو پھو۔۔ وہ میں واک کرنے گنی  تھی سو چاواپسی پر آپ سے مل لوں

حناوے نے مسکراتے ہوئی ہے جواب دیا۔

ماشاء اللہ بہت سمجھدار ہوگئی ہو صبح صبح اٹھنے لگی ہو ۔۔ “

رخسار پھو پھونے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔

ناشتہ بنالیا۔۔؟؟

حناوے نے سوال کیا۔

نہیں بنارہی ہوں۔۔ آو تم بھی ناشتہ کر کے جانا۔۔” رخسار پھوپھو اسے ساتھ لئیے کچن کی جانب بڑھیں۔

پھوپھو چائے میں بناؤں ؟؟” آج تو وہ حیران کیا جارہی تھی۔

ہاں ہاں۔۔ جیسا تمہار ا دل کرے۔۔” رخسار پھوپھو اسے یوں دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں۔

حناوے پوری سنجیدگی سے چائے بنانے لگ گئی ۔

اماں جان۔۔ اچانک حضر کی آواز ابھری تھی اور حناوے چوکنی ہوئی—-

وہ سیدھا کچن میں آیا تھا۔ اور پھر حناوے کو دیکھ کر اسکی آنکھیں پھیلیں۔

حناوے رانا۔۔ اسکے گھر میں۔۔ اسکے کچن میں۔۔

یعنی اپکا گڑ بڑ تھی۔

خیریت آج بڑے لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں وہ بھی صبح صبح ۔۔؟؟
وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا تھا۔ دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا حنا وے نا تو اتنی اچھی تھی اور نا ہی اتنی معصوم جتنی وہ بن رہی تھی۔

‏ہاں بس دیکھ لو۔۔ میری بیٹی سمجھدار ہوگئی  ہے۔۔ ” رخسار پھو پھونے جواب دیا تھا۔ جبکہ حناوے نے خاموش رہنا بہتر جانا۔

ناشتہ لگادیں میں تیار ہو کر آرہا ہوں مجھے جلدی جانا ہے۔۔”
خضر اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتا کہہ کر جا چکا تھا۔
حناوے جانتی تھی پولیس والے کی نظریں کتنی تیز تھیں۔ وہ اپنے دھڑکتے دل پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔

بیس منٹ بعد خضر اپنے یونیفارم میں ملبوس کھانے کی ٹیبل پر موجود تھا۔ وہ اب سنجیدگی سے ناشتہ کر رہا تھا۔ کبھی کبھی ایک اچٹتی سی نگاہ حناوے پر ڈال لیتا تھا جو خاموشی سی ناشتہ کر رہی تھی ۔

میں چائے لے کر آتی ہوں۔۔”
ناشتے کے بعد رخسار پھو پھونے کہا تھا۔

نہیں پھو پھر آپ بیٹھیں میں لے آتی ہوں۔۔ ” حناوے ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی  اور کچن کی جانب بڑھ گئی ۔

سویٹر کی جیب سے ایک پیکٹ نکالا۔ یہ نیند کی گولیاں تھیں جو کبھی کبھار نیند نہ آنے کے باعث اسکی امی لے لیتی تھیں۔

مسٹر رشوت خور ۔۔ سارا دن سوتے رہنا تمہیں پتا چل جائیے گا کہ  حناوے کے ہاتھ کی چائے پینا کا کیا مزہ ہے۔۔ ساری گولیاں ایک کپ میں ڈالنے کے بعد اچھے سے پیچ ہلا کر وہ پانچ منٹ بعد چائے لے کر آگی تھی۔

ایک کپ رخسار پھوپھو اور پھر دوسر اخضر کے سامنے رکھا۔ خضر خاموشی سے اسکی ایک ایک حرکت پر غور کر رہا تھا۔
خضر کو خاموش دیکھ کر حناوے نے زبر دستی مسکرا کر کہا۔ خضر نے خاموشی سے کپ اٹھا لیا۔

ایک گھونٹ بھرنے کے بعد اس نے کپ میز پر رکھا۔

آج تو چینی کم ہے چائے میں ۔۔” وہ اچانک  بولا تھا۔

نہیں تو۔۔ مجھے تو بالکل ٹھیک لگی۔۔ بلکہ حناوے نے بہت اچھی چائے  بنائی  ہے۔۔ پھوپھو نے اپنی بھتیجی کی تعریف کی۔

، لیکن امی مجھے لگ رہی ہے۔۔ میں چینی ڈال کر لاتا ہوں۔۔”

وہ کھڑا ہوا۔

خضر تم تو پھیکی چاہے پیتے ہو نا۔۔؟؟ رخسار پھوپھو کو حیرت ہو رہی تھی۔ آج وہ دونوں ہی عجیب سی حرکتیں کر رہے تھے۔

آج میرا دل کر رہا ہے۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا

لائیں میں ڈال لاتی ہوں۔۔” حناوے نے اٹھتے ہوئیے کہا۔

نہیں تم بیٹھو۔۔ مجھے پتا ہے مجھے کتنے چمچ ڈالنے ہیں۔۔ تم چائے پیو اور  اس زحمت سے بچو۔۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ اچھالتا کپ اٹھا کر کچن کی طرف بڑھ گیا تھا۔

، کہیں اسے شک تو نہیں ہو گیا؟؟ ” حناوے کا دل ڈوب کر ابھرا۔

خضر نے چائے سنگ میں پھینک دی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ حناوے نے کیا ملایا تھا لیکن اسے پورا یقین تھا کچھ نا کچھ ضرور ملایا تھا اس نے۔

پتیلی سے دوسری چائے ڈال کر وہ واپس آگیا تھا۔

چاے پینے کے پانچ منٹ بعد وہ پولیس اسٹیشن جانے کیل ئی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

رخسار پھو پھونے اسکی پیشانی پر پیار کیا تھا۔

Have A Good day 😊!!!!!
حناوے اسے دیکھ کر مسکرائی  تھی۔

اور پھر وہ چلا گیا۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد حناوے جب حیات ہاؤس سے باہر آئی  تو سڑک پر جیپ سے ٹیک لگائے خضر کو کھڑا پایا۔ حناوے کو دیکھ کر وہ سیدھا ہوا۔

آئیے حناوے رانا آپ ہی کا انتظار تھا۔۔ چایے اچھی بنی تھی۔۔”
وہ آنکھوں میں شرارت لیے کہہ رہا تھا۔

حناوے اسے یوں کھڑا دیکھ کر ٹھٹھی تھی۔

پلان اچھا لیکن معذرت کہ وہ فیل ہو گیا۔۔ شاید تم بھول گئی ہو میں  ایس پی خضر حیات ہوں۔۔ مجرموں کے پلان کو ناکامیاب بنانا ہی میرا کام ہے۔۔ اور آج تم بھی فیل ہو گئی ۔۔ تو آئیندہ احتیاط کرنا

اب کی بار ا سکے لہجے میں سنجیدگی اور سر دپن تھا۔

بچگانی حرکتیں کرنا بند کرو۔۔ نہیں تو اچھا نہیں ہو گا۔۔”
حناوے کی سنے بنا وہ اسے وارن کرتا اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اور پھر کچھ دیر بعد اسکی جیپ نظروں سے اوجھل ہو گی تھی

حناوے کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔ ضبط کے باعث اسکا چہرہ سرخ ہوا تھا۔ پہلی بار کوئی  پلان ناکام ہوا تھا۔
اس نے سر اٹھا کر رانا ہاوس کی طرف دیکھا جسکے چاروں کی طرف چار فٹ کی پتھروں کی خوبصورت دیوار تھی۔ اور دیوار کے پار لان میں ھدی اسے ہاتھ ہلاتی نظر  آئی  تھی۔ حناوے غصے سے پیر پٹختی گیٹ کی جانب بڑھی جہاں گارڈ بیٹھا تھا۔

کیا ہو ا حناوے رانا پلان فیل ہو گیا ؟؟” ھدی کے لہجے میں چھپا طنز وہ اچھی طرح بھانپ گئی تھی۔

کہا تھا وہ پولیس والا تمہارے ہاتھ نہیں آنے والا ۔۔ ” ھدی قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔

ایسے ہی تو ھدی را نا کا دل نہیں آیا خضر حیات پر ۔۔۔ “

اب کی بار ھدی کے چہرے پر سرخی ابھری۔

دفع ہو جاو منحوس۔۔ میرا دماغ خراب مت کرو۔۔ ” حناوے غصے سے پھنکاری تھی۔

اب اپنی سزا کیلئے تیار ہو جاؤ ۔۔” هدی مسکرا کر کہتی اندر کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ حناوے جل کڑھ کر رہ گئی  تھی۔
—————-  

More From Author

+ There are no comments

Add yours