Table of Contents
Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete
Episode No 19
حناوے از نور راجپوت
حیدر آباد میں بھی ٹھنڈ نے اپنے پر پھیلائے تھے۔ گاڑی تیزی سے گاؤں گی سڑک پر آگے کی جانب بھاگ رہی تھی۔ امن پر سکون سا پیچھے بیٹھا تھا۔ بڑی سی گاڑی میں تین لوگ تھے۔ ایک امن ایک اسکا ڈرائیور اور اسکاذاتی باڈی گارڈ اور اسکا ذاتی ملازم خان۔۔
اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔
کیا ہوا خان ؟؟” امن نے چونک کر پوچھا۔
ملک صاحب درگاہ ہے۔۔ میں حاضری دے آؤں۔۔؟؟ خان نے ادب سے پوچھا تھا۔ وہ جب بھی اس راستے سے گزر تا لاز می درگاہ ے پر حاضری لگاتا تھا
امن نے اپنی جانب کا شیشہ نیچے کر کے ، آنکھوں سے سیاہ چشمہ اتار کر اس درگاہ کو دیکھا تھا جو چھوٹے سے کمرے پر مشتمل تھی۔
ایک بڑا سا برگد کا درخت تھا جس پر پرندے چہچہار ہے تھے۔ پورے درخت پر پرندوں کے گھونسلے بنے ہوئے تھے۔ ایک نلکا لگا ہوا تھا۔ اور ایک فقیر درگاہ کے باہر درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
یہ درگاہ۔۔ یہاں حاضری دینے سے کیا ہوگا ؟؟ امن نے استہزا یہ ہنسی ہنستے ہوئے پوچھا۔ اسکا انداز مذاق اڑانے والا تھا۔
یہ اماں ذلیحہ کی درگاہ ہے ملک صاحب۔۔”
خان نے جواب دیا تھا۔
اور وہ کون تھی ؟؟
امن نے بے اختیار ہی پوچھ لیا۔
کہتے ہیں سالوں پہلے جب اس علاقے پر چوہدریوں کا راج تھا ذلیخہ انکی اکلوتی بیٹی تھی۔۔ پانچ بھائی یوں کی بہن بہت خوبصورت تھی لیکن قسمت خراب نکلی۔
گاؤں کے کمیوں کا لڑکا تھا جی_ بڑا سوہنا گاتا تھا اور شکل صورت بھی اچھی تھی اسکی آواز پر ذلیحہ دل ہار بیٹھی آگ ایک طرف لگی تو تپش دوسری طرف بھی گئی _دونوں ایک دوسرے کے عشق میں
گرفتار ہو گے تھے جب ذلیحہ کے گھر والوں کو پتا چلے تو انہوں نے اسے حویلی میں قید کر دیا
ایک دن موقع دیکھ کر دونوں بھاگ نکلے لیکن عشق میں ملن نہیں لکھا جی_ذلیحہ کے گھر والوں نے دونوں کو مار دیا ذلیحہ کو یہاں دفنا دیا گیا تاکہ آنے والی سات نسلیں یاد رکھیں اور گاؤں میں کبھی کوئی عشق نہ کرے
کہتے ہیں یہ خالی جگہ تھی یہاں یہ ایک قبر تھی ایک دن کسی اللہ والے نے یہاں پودہ لگادیا جواب تناور درخت بن چکا ہے۔
اور ناجانے کتنے سال پرانا ہے۔
خان ایک پل کو سانس لینے کو رکا۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سی نمی تھی۔
پھر کچھ سال گزرنے کے بعد ایک جوڑا آیا تھا جو اس درخت کے سائے کہتے ہیں انہوں نے اس درخت کے نیچے بیٹھ کر دعا مانگی تھی کہ وہ اپنی محبت میں کامیاب ہو جائیں اور انکی دعا پوری ہوگئی –
میں کچھ دیر آرام کرنے کور کا تھا۔
پھر لوگ آنے لگے اور یہاں درخت کے نیچے سائے میں دعامانگنے لگے مسافروں کی ویسے بھی دعا قبول ہوتی ہے پھر ایک دن کسی نے قبر پر نظر ڈالی تو انہیں احساس ہوا شاید کوئی کی اللہ کا نیک بندہ دفن ہے۔
ابا بتاتے ہیں کہ یہاں پر کسی نے قبر کے گرد کمرہ بنوادیا۔
اور پھر یوں یہ ایک درگاہ کی شکل اختیار کر گیا۔
یہ کوئی کی بڑی درگاہ نہیں اور ناہی مشہور ہے۔۔ لیکن اماں ذلیحہ کے نام سے جانی جاتی ہے اور جو جانتے ہیں وہ ضرور سلام کرنے آتے ہیں
کمال ہے۔۔ ایسا بھی ہوتا ہے۔۔ خان تم بھی پاگل ہی ہو۔۔”
امن نے قہقہہ لگایا۔
بس جی۔۔ عقیدت سی ہے اماں ذلیخہ سے ۔۔”
اور اسکے گھر والے کہاں گئے ؟؟
وہ جی کہتے ہیں انکی حویلی اور خاندان پر آفت ٹوٹ پڑی تھی۔۔ بچے بیمار ہونے لگے بڑے مرنے لگے اور انکی زمینیں بنجر ہو گئی ہیں۔۔ مویشی ختم ہو گئیے آخر تھک ہار کر اور ڈر کر وہ لوگ اپنی بچی کھجی چیزیں لے !!_ کر یہاں سے چلے گئیے
اب تمہارا کیا ارادہ ہے ؟؟ امن نے خان سے پوچھا۔
میں بس ابھی آیا فاتحہ پڑھ کر۔۔”
خان نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے جاؤ ۔۔” امن نے کہا اور سگریٹ سلگا کر دھواں گاڑی کے شیشے سے باہر پھینکنے لگا۔
نہیں بچے گا۔۔ نہیں بچے گا۔۔”
امن نے ایک پل کو چہرہ دوسری جانب کیا تھا اور اچانک ایک عورت گاڑی کے ادھ کھلے شیشے پر جھپٹی۔ امن اس اچانک افتاد پر اچھلا تھا۔
کون ہو تم ۔۔؟؟
امن نے غصے سے عورت سے پوچھا جو حلیے سے پاگل لگ رہی تھی۔ اسکا مٹی سے اٹا چہرہ گندے بال اور کپڑے
ناجانے وہ کون تھی۔
نہیں بچے گا تو بھی۔۔ عشق ہو گا۔۔ پاگل بھی ہو گا۔۔ عشق نہیں چھوڑے گا۔۔ وہ بے ربط سی بول رہی تھی۔ امن نے گاڑی کا شیشہ اوپر کیا۔
اسکو دفع کرو یہاں سے کون ہے یہ۔۔؟؟”
امن نے ڈرائیور سے کہا جو ایک جھٹکے سے گاڑی سے باہر نکلا۔ گاڑی کے شیشے پر اب اس پاگل عورت نے تھپڑوں کی بارش کر دی تھی۔
اسکی آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی۔ امن کے پورے جسم میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑ گئی تھی۔
ڈرائیور اب اسے گاڑی سے دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تبھی خان درگاہ سے باہر آیا اور اس نے گاڑی کے پاس لگے تماشے کو دیکھ کر سویٹر کے اندر سے پستول نکال کر ہوائی کی فائیرکیا تھا۔
فائیرکی آواز سے پرندے برگد کے درخت سے اُڑے تھے۔ اور وہ پاگل عورت جو شاید کبھی خوبصورت لڑکی تھی لیکن حلیے سے پہچانی نہیں جارہی تھی یک لخت ساکت ہوئی تھی۔ اسکی آنکھوں میں درد کی گہری لہر نمی کی صورت میں ابھری تھی۔
مار ڈالا۔۔ اسے مار ڈالا۔۔ “
وہ روتی کر لاتی درگاہ کی جانب بڑھی تھی۔ اور خان نے تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے قدم گاڑی کی طرف بڑھادیے۔
درخت کے نیچے بیٹھے فقیر نے فائیرکی آواز پر آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ اسکی سرخ آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا۔۔
اس نے گہری نظروں سے گاڑی کو دیکھا۔۔ اسکے لبوں پر مسکراہٹ ابھری اور پر اس نے دوبارہ درخت س ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
کون تھی یہ پاگل ۔۔۔؟؟”
خان کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد امن نے پوچھا تھا۔
ملک صاحب۔۔ وہ۔۔”
وہ کیا۔۔؟؟
امن کے چہرے پر کوفت پھیلی تھی۔
یہ وہی لڑکی ہے جسکے منگیتر کو آپ نے مار دیا تھا۔۔ یہ راحیلہ ہے۔۔ اسکی موت کے بعد پاگل ہو گئی ہے جی_
سارا دن گلیوں میں بھاگتی رہتی ہے ایک ٹوٹا سا چشمہ ہاتھ میں ہوتا ہے بہکی بہکی باتیں کرتی ہے
جی۔۔
خان بتارہا تھا جبکہ امن نے جھٹکے سے سیاہ چشمہ اتار کر شیشے سے باہر دیکھا تھا۔
وہ اب درگاہ سے ٹیک لگائے ہاتھ میں ٹوٹے ہوئے چشمے کا فریم لے ہنس ہنس کر اس سے باتیں کر رہی تھی۔
امن کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی تھی۔ امن کی نظریں ابھی تک اس پر ہی جمی تھیں۔
پاگل راحیلہ نے آنکھیں اٹھا کر امن کی جانب دیکھا اسکی گاڑی لمحہ بہ لمحہ دور ہو رہی تھی۔ لیکن اسکی نم آنکھوں سے عجیب سی صدا میں ابھر رہی تھیں۔
جنہیں برگد کے درخت پر موجود پرندے جو واپس آے تھے بخوبی سن سکتے تھے۔ انکی چہچہاہٹ میں بھی ایک ہی پکار تھی
کہ تجھے عشق ہو خدا کرے
کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھ پرنم رہا کرے
تو اس کی باتیں کیا کرے
تو اس کی باتیں سنا کرے
اُسے دیکھ کر تو رک پڑے
وہ نظر جھکا کر چلا کرے
تجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے
تو ملن کی ہر پل دعا کرے
تیرے خواب بکھر ٹوٹ کر
تو کرچی کرچی چنا کرے
تو نگر نگر پھرا کرے
تو گلی گلی صدا کرے
تجھے عشق ہو پھر یقین ھو
اُسے تسبیحوں پر پڑھا کرے
میں کہوں ”عشق ڈھونگ“ ہے
تو نہیں نہیں کہا کرے۔
تو نگر نگر پھرا کرے
تو گلی گلی صدا کرے
تو نگر نگر پھرا کرے
تو گلی گلی صدا کرے
پاگل راحیلہ کی آنکھوں اور دل سے دیر تک صدا میں ابھرتی رہی تھیں۔
————————————————————————————————————————————————————————————-
کیا ہو اعلیزے تم آج کل کافی بدلی بدلی سی لگتی ہو سب ٹھیک ہے ”
نا۔۔۔؟؟
حناوے جو کب سے علیزے کو خضر والا قصہ سنارہی تھی اسے ذہنی طور پر غیر حاضر دیکھ کر پوچھا۔
نہیں تو سب ٹھیک ہے۔۔ ” علیزے زبر دستی مسکرائی ۔
کچھ دن پہلے تک تم بہت خوش تھی۔۔ عجیب سی خوشی تھی تمہارے چہرے اور اب کچھ دنوں سے تم عجیب طرح سے پیش آرہی ہو ۔۔
حناوے نے اپنی واحد دوست سے پوچھا جو اسے اچھے سے جانتی تھی اور حناوے کے قصوں کو خوب انجوائے کرتی تھی۔۔
لیکن اب اسکے چہرے پر اداسی پھیلنے لگی تھی۔ حناوے اسکے یوں بدلتے روپ دیکھ کر پریشان تھی۔
نہیں بس طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔ ” علیزے نے کوفت زدہ لہجہ میں کہا تھا۔ اور حناوے بس اسے دیکھ کر رہ
گئی تھی کچھ تو غلط تھا۔
جو علیزے اسے نہیں بتارہی تھی۔
اچھا چلو یہ سب چھوڑو چلو کینٹین چلتے ہیں۔۔” حناوے نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں سفید یونیفارم میں ملبوس تھیں۔
نہیں تم جاؤ میرا دل نہیں ہے۔۔۔” علیزے نے صاف انکار کر دیا۔
مجھے آنٹی سے بات کرنی پڑے گی کہ وہ تمہارا خیال نہیں رکھتیں۔۔” تمہاری رنگت پیلی پڑ چکی ہے۔۔ وہ تمہارا چیک اپ کیوں نہیں کرواتیں۔۔
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور انہیں پر واہ نہیں کیا۔۔؟؟
حناوے نے خفگی سے کہا تھا۔
ن۔۔ نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ چلو چلتے ہیں۔۔”
حناوے کی بات پر علیزے ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ حناوے سچ میں اسکی ماما سے بات کرے۔
اب آئی نا لائن پر۔۔ چلو۔۔”
حناوے نے شرارت سے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا تھا علیزے بس مسکرا رہ گئی تھی۔
مسز ملک اپنے آفس میں موجود فائیل پر جھکیں کام اسے چیک کرنے میں مصروف تھیں جب اچانک ان کا فون تھر تھرایا۔
انہوں نے ہاتھ بڑھا کر میز پر رکھا فون اور اٹھایا اور پھر کال کرنے والے کا نام دیکھ کر آنکھوں میں ایک گہری اذیت پھیل گئی ۔ ایک گہر اسانس لے کر انہوں نے فون کان کو لگایا تھا۔
! السلام علیکم لہجے کو حتی المقدور سادہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
کہاں ہو تم ۔۔ ؟؟
” شہباز ملک پھنکارے۔
میں کل مری آگی تھی ارحم کے ساتھ ۔۔” مسز ملک نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔
، کس کی اجازت سے۔۔؟؟
وہ پھنکارے۔ مسز ملک لب بھینچ کر رہ گئی ہیں۔
تم سے پوچھ رہا ہوں کس کی اجازت سے تم حیدر آباد سے مری گئی “
ہو ؟؟
وہ زہر خند لہجے میں پوچھ رہے تھے۔
میں نے آپکو دو تین بار فون کیا تھا آپ نے اٹھا یا نہیں تو۔۔”
میں کراچی گیا تھا مر انہیں تھا جو تم بنا اجازت وہاں سے چلی آئی ۔۔” وہ اسکی بات کاٹ کر دھاڑا تھا۔
، مجھے ارحم نے کہا تھا۔۔
” مسز ملک نے بوسیدہ کی صفائی کی پیش کی۔
ارحم کے بل بوتے پر اتنامت اچھلو۔۔ صرف اسی کی وجہ سے تم یہ کام کر رہی ہو ورنہ ۔۔۔
اور میری ایک بات کان کھول کر سن لو آئیندہ اگر ایسی حرکت کی ناتو تمہیں آزاد کر دوں گا پھر خود بھی کسی دار الامان میں رہ لینا گھر تو ویسے بھی تمہارا کوئی نہیں ہے۔۔
شہباز ملک کے لہجے میں اپنی بیوی کیلے انتہا کی نفرت تھی۔ اور انکے الفاظ مسنر ملک کو اندر تک توڑگئیے تھے_
مسز ملک کی روح کو چھلنی کرگے تھے۔
وہ اپنا ز ہر اگل کر فون بند کر چکا تھا جبکہ مسز ملک آنکھوں میں آئیے آنسوؤں کو ضبط کرنے میں ناکام ہو گئی تھیں۔
اتنے سال ہو گئیے تھے شہباز ملک کار و یہ آج بھی نہیں بدلہ تھا۔ وہ بھی کھٹور شہباز ملک تھے۔
انکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی شہباز ملک سے شادی کرنا تھی۔
اچھا نہیں کیا آپ نے شہباز ملک اور آج بھی اچھا نہیں کر رہے “
آپ۔۔
وہ نم آنکھیں لئیے تصور میں ان سے مخاطب تھیں۔
میں اندر آسکتی ہوں میم ۔۔ ؟؟
دروازے پر ہونے والی دستک نے مسز ملک کو چو نکایا۔ انہوں نے جلدی سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا۔ ارے نمل۔۔ آو ۔۔” وہ زبر دستی مسکرائیں۔
کیا ہوا میم آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟؟
نمل انکے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کے بعد پوچھا۔ وہ مسز ملک کو جانچنے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
ہاں، بس۔ میری آنکھ میں کچھ گڑبڑ ہو گئی۔ ملک صاحب ہنس رہے تھے۔
میم یہ ڈائیلاگ کافی پرانا نہیں ہو چکا۔۔؟؟”
نمل نے شرارت سے کہا۔ تو مسنر ملک دوبارہ مسکرادیں۔
، خیر یہ کام مکمل ہو گیا ہے۔۔ یہ فائیل آپ چیک کر لیجیے گا۔۔ ”
نمل نے فائل انکے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے میں چیک کرلوں گی۔۔ آپ سنائیں کیسی ہیں گھر میں سب کیسے ہیں؟؟ مسز ملک نے ماحول پر چھائی بو جھل پن کو دور کرن چاہا۔
جی اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں۔۔ ”
نمل نے خو نے خوشدلی سے کہا۔ پورے سٹاف میں سے نمل واحد لڑکی تھی جو مسز ملک کو بلا وجہ پیاری تھیں۔
بیشک وہ اپنا کام ذمہداری سے کرتی تھی لیکن اسکی مسکراہٹ اور اسکا بات کرنالوگوں کو جلد اپنا بنالیتا تھا۔
گھر نہیں جانا آپ نے؟؟” مسز ملک نے دوسراسوال کیا۔
جی میں نے ڈرائیور کو فون کر دیا ہے وہ بس لینے آتا ہو گا۔۔ ”
چلوا اچھی بات ہے۔۔”
مسز ملک نے کہا اور تب ہی انکے موبائل پر دوبارہ تھر تھر اہٹ ہوئی ۔ اب کی بار نمبر دیکھنے پر مسز ملک کے چہرے پر پرسکون سی مسکراہٹ ابھری۔
میرا بیٹا ارحم ۔۔۔ لینے آگیا ہے۔۔” وہ نمل کو دیکھ چمکتی آنکھوں سے بتارہی تھیں۔
مجھے جانا ہو گا۔۔ لیکن میں سوچ رہی ہوں جب تک آپ کاڈرائیور نہیں آجاتا میں ادھر ہی رک جاؤں۔۔
اکیلے نہیں چھوڑ سکتی آپکو۔۔ مسز ملک کے لہجے میں فکر مندی تھی۔
میم آپ پریشان نہیں ہوں۔۔ آپ آرام سے جائیں۔۔ ڈرائیور بس آتا ہی ہو گا اور میں یہاں اکیلی نہیں۔۔ صائم اور نوین یہی پر ہیں۔۔ نمل نے انکی پریشانی دور کرتے ہوئے کہا۔
اچھا پھر ٹھیک ہے۔۔ ”
مسز ملک کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر باہر کی جانب بڑھیں۔
نمل انکے ساتھ باہر تک آئی تھی۔ باہر سڑک پر گاڑی کھڑی تھی جو ارحم کی تھی۔ ارحم کی نظریں شیشے کے دروازے پر جمی تھیں جسکے باہر گارڈ کھڑا تھا۔
اور تھوڑی دیر بعد اسکی ماما یعنی مسزملک باہر آئی تھیں۔ انکے ساتھ باتیں کرتی لڑکی کو دیکھ کر ارحم کی تیوری چڑھی۔
کیا مطلب کس کا گاؤں ہے ؟؟ ہمیں گاؤں سے کیا لینا؟؟ اور یہاں کیا ایلین بستے ہیں جو آپ اس طرح سے بی ہیو کر رہے ہیں۔۔
ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہوئے واقعہ کو یاد کر کے ارحم کے چہرے کے زاویے بگڑے۔ وہ اسے پیچان گیا تھا۔
وہ گاڑی سے بخوبی نمل کو دیکھ سکتا تھا اور پہچان بھی لیا تھا جبکہ نمل کا دھیان گاڑی کی طرف نہیں تھا۔
اچھا اپنا خیال رکھنا۔۔”
مسز ملک نے نمل کا گال تھپتھپایا اور گاڑی کی طرف بڑھیں۔
جبکہ نمل مسکراتی اندر جا چکی تھی۔
دیر تو نہیں ہوئی مجھے آنے میں۔۔؟؟
گاڑی میں بیٹھنے کے بعد مسز ملک نے اپنے اکلوتے بیٹے سے پوچھا تھا۔
نہیں ماما۔۔”
وہ مسکرایا البتہ ذہن نمل میں الجھا تھا۔
یہ لڑکی کون تھی ماما۔۔؟؟”
ارحم زیادہ دیر بات دل میں نہیں رکھ سکتا تھا اسی لئے فوراً پوچھا۔
کون لڑکی ۔۔؟؟ مسز ملک کے چہرے پر الجھن ابھری۔
وہی جس سے اتنا پیار جتایا جا رہا تھا۔۔ “
ارحم نے خفگی سے کہا تو مسنر ملک کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
یہ نمل ہے۔۔ بہت اچھی بچی ہے۔۔ پورے سٹاف میں میر ا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے۔۔
اور بہت اچھی باتیں کرتی ہے۔۔ مسز ملک نے دل سے نمل کی تعریف کی۔ جبکہ ارحم سامنے دیکھ گاڑی چلا رہا البتہ اسکا باتیں دھیان سے سن رہا تھا۔
ملک انسان نہیں ہوتے کیا۔۔ یا آپکو ہم انسان نہیں لگ رہے ۔۔؟؟”
نمل کا طنزیہ لہجے ارحم کو اچھی طرح سے یاد تھا۔
کچھ زیادہ ہی اچھی باتیں کرتی ہے۔۔ ” ارحم زیر لب بڑبڑایا تھا البتہ اسکا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔
تو پھر حناوے رانا تیار ہو تم اپنی سزا کیلیے ؟؟
ھدی نے طنزیہ لہجے میں پوچھا تھا۔
کونسی سزا ؟؟
حناوے نے انجان بنتے ہوئے کہا تھا۔ اتنے دنوں سے وہ انتظار میں تھی کہ کب ھدی اس سے اس موضوع پر بات کرے گی۔۔
وہ جانتی تھی ھدی اسکی جان نہیں چھوڑنے والی تھی۔
،، منحوس بھولی نہیں ۔۔”
حناوے نے دل ہی دل میں ھدی کو گالیاں نکالی۔
تم اپنا کہا پورا نہیں کر پائی ۔۔ یعنی تم فیل ہو گئی تھی۔۔ اگر یاد ہو ” ۔۔
۔۔ اب تمہیں سزا ملے گی۔۔ اور وہ دونگی۔۔۔ ایک میں dare کہوں گی۔۔ بلکہ ہم کہیں گے تمہیں وہی کرنا ہو گا۔۔
عرصے بعد تو حناوے انکے ہاتھ لگی تھی ھدی کافی پر جوش تھی۔
، بھونکو۔۔ کیا کرنا ہو گا مجھے۔۔” حناوے نے سلگتے لہجے میں پوچھا۔
”ڈانس۔۔،
ھدی نے گو یاد ھما کہ کیا۔
کیا۔۔ پھر سے کہنا۔۔”
حناوے کو یقین نہیں آیا تھا کہ اسکے کانوں نے جو سنا وہ سچ تھا۔ ڈانس۔۔ اسے الف ب نہیں تک نہیں معلوم تھی ڈانس کی۔
جی ہاں تمہیں ڈانس یعنی رقص کرنا ہو گا۔۔ وہ بھی طوایف کا حلیہ اپنا کر۔۔
یہ کیا تھا ھدی نے دوسرا دھما کہ ۔۔ حناوے کو رانا ہاؤس کی چھت اپنے اوپر زوال محسوس ہوا۔
ہاں تمہیں ماہ میر کی ہیروئین کا کردار بہت پسند آیا تھا نا بس تمہیں وہی کرنا ہو گا۔۔
سماب نے یاد دلانا ضروری سمجھا جبکہ حناوے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی۔ اسکی ایک ہی کمزوری تھی جسکا اسکے سامنے بیٹھی ڈائینوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا۔
تمہیں کیا لگتا ہے حناوے یہ کام کر پائے گی ؟؟ منال نے اپنے ساتھ چلتی ھدی سے پوچھا۔ وہ دونوں اس وقت دبے قدموں راہداری سے گزر سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ ھدی نے بھاری اونی شال سے جو کہ کمبل سے کم معلوم نہیں ہو رہی تھی، خود کو
اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا۔
وہ دونوں اس وقت حناوے کے کمرے سے آئی تھیں۔
پورا کرنا ہو گا۔۔ Dare وہ شرط ہارگئی ہے اب تو اسے یہ هدی نے آہستہ سے کہا۔ وہ دونوں دھیمی آواز میں بات کر رہی تھیں تاکہ گھر میں موجود باقی افراد کو انکے اس وقت جاگنے کی خبر ناہو۔
پھر بھی یار اس ٹھنڈ میں اس اندھیرے خوفناک جنگل میں طوایف کا روپ دھار کر ڈانس کرنا یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا؟؟ منال نے کہتے ہوئے جھر جھری سی لی۔
تو تم کیا چاہتی ہو ہم یہ ٹاسک نہیں دیں اسے ؟؟” ھدی نے رک کر منال کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
نن۔۔ نہیں میرا یہ مطلب نہیں۔۔ لیکن یادر کھوا سکے ساتھ ہم بھی !! پھنسیں گے
منال نے یاد دلایا۔
ہم کب نہیں پھنستے اور کب نہیں پکڑے جاتے ؟؟ ھدی نے چڑ کر پوچھا۔
کون ہے یہاں اس وقت اور کیا ہو رہا ہے؟؟ بھاری بھر کم ، سخت آواز پر دونوں کی سٹی گم ہوئی ۔
لو آ گیا تمہار اد جال بھائی اب نہیں بچیں گے ہم۔۔۔” منال نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا تھا۔ وہ دونوں اپنی جگہ پر کھڑی کانپ رہی تھیں۔
راہداری میں تھوڑا اندھیرا تھا۔ ڈر کی وجہ سے دونوں کی گھگی بندگی تھی۔ بھاگنے کا تو ہوش نہیں رہا انہیں ۔ چند ہی پل کے بعد پوری راہداری روشنی میں نہاگی شاہ ویزرانا سرد سے تاثرات چہرے پر جمائیے ، بھنویں اچکائے ان دو لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا جو چہرہ دوسری جانب کیسے کھڑی تھیں اور محسوس ہو رہا تھا جیسے اپنی جگہ پر جم گئی ہوں۔ وہ متوازن قدم اٹھاتا انکی جانب بڑھا۔
اللہ کرے کیڑے پڑیں ان تینوں کو شاہ ویز بھیا کے ہاتھ لگ جائیں انکی ایسی درگت بنے کہ بس۔۔ ضبط کے باعث اسکا خوبصورت چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
حناوے نے بیڈ سے تکیہ اٹھا کر نیچے زور سے پھینکا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنے غصے کو کیسے کم کرے۔ کون دیتا ہے کسی کو ؟؟ Dare اتنا مشکل ” !!
ما م ٹھیک ہی کہتی ہیں کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے وہ اب روہانسی ہو کر نیچے قالین پر بیٹھ گئی تھی۔ کمرے میں ہیٹر کی گرمائش تھی۔
ڈانس۔۔ ہائے کیسے کروں گی میں ڈانس مجھے تو پاؤں ہلانا بھی نہیں آتا۔۔؟؟
وہ اس وقت شدید صدمے میں تھی۔
اگر وہ رشوت خور پولیس والا نہیں رکتا اس دن تو ھدی کو نہیں پتا چلتا اور میں شرط جیت جاتی _آج مجھے یہ ٹاسک نہیں ملتا اسے رہ رہ کر تصور میں موجود شخص پر شدید غصہ آرہا تھا۔
مسٹر رشوت خور _ ایس پی خضر حیات رانا صاحب میں تمہیں نہیں وہ دبی دبی آواز میں چلائی تھی۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خضر حیات رانا کو جان سے مار ڈالے جو اسکی ہار کا سبب بنا تھا۔
، تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟”
شاہ ویز نے سر جھکائے کھڑیں ھدی اور منال سے پوچھا۔
لگ۔۔ کچھ نہیں بھائی ی۔۔۔ ہم بس اپنے کمرے میں جارہے تھے۔۔” ھدی نے اٹکتے ہوئے جواب دیا تھا۔
آتماؤں کی طرح کیوں بھٹکتی رہتی ہو تم سب ۔ ٹائم دیکھا ہے کیا۔۔ جاؤ اور آئیندہ میں تم لوگوں کی اتنی رات گئی تک گھر میں بھٹکتانہ دیکھوں۔۔
شاہ ویز نے حکم دیا تھا۔ دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ منال اپنے تیز دھڑکتے دل کی آواز بخوبی سن سکتی تھی۔۔ دل کہہ رہا تھا کہ ایک بار نظریں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اینگری مین کو دیکھ لے۔۔ لیکن نگاہوں نے گستاخی کرنے سے منع کر دیا۔
وہ اپنی جگہ پر جیسے جم گئی تھی۔
، چلو پاگل ۔۔۔” ھدی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور تیز تیز قدم اٹھائی کمرے کی طرف بڑھ گیی۔
انکے جانے کے بعد شاہ ویز سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا۔ سیڑھیاں اتر نے کے بعد اب وہ نیچے شہناز بیگم یعنی اپنی امی کے کمرے کی طرف جارہا تھا۔
،، شکر ہے تمہیں بھی ماں کی یاد آئی گی۔۔ ” شاہ ویز کو دیکھ کر شہناز تائی کی نے شکوہ کیا۔
آپکا خیال تو ہمیشہ رہتا ہے۔۔”
وہ بس ایک پل کیلے مسکرایا اگلے لمحے اسکے چہرے پر سنجید گی پھیل گئی ۔
مجھے سمجھ نہیں آتی یہ لڑکیاں اتنی رات گئی تک کیا کرتی رہتی ہیں۔۔ کچھ دیر خیریت و حال چال دریافت کرنے کے بعد شاہ ویز نے کہا۔
کچھ نہیں ہوتا بیٹا۔۔ اتنی سختی نہیں کرنی چاہیے۔۔ بچیاں ہیں تم پیار سے سمجھاؤ گے تو سمجھ جائیگی۔۔
شهناز تائی کی کو شاہ ویز کا ہر وقت غصے میں رہنا نہیں پسند تھا اور جب بھی وہ ھدی کو ڈانٹتا تھا وہ لازمی شہناز تائی کے پاس آکر روتی تھی۔ اور اکثر
کہتی تھی کہ شاہ ویز بھائی اس سے ذرا پیار نہیں کرتے
امی آپ جانتی ہیں لڑکیوں کو ڈھیل دی جائے تو کیا ہوتا ہے۔۔ بھول گئی میں آپ سالوں پہلے کیا واقع ہوا تھا اور میں نہیں چاہتا ایسا کوئی ناخوشگوار حادثہ پھر سے ہو۔۔ کم از کم میں تو برداشت نہیں کر پاؤں گا۔۔
شاہ ویز نے سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا تھا۔
اچھا تم پریشان مت ہو۔۔ میں سمجھاؤں گی انہیں ۔۔” شہناز تائی نے اپنے خوبرو جوان بیٹے کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا تھا جو فی الوقت اتنا آسان نہیں تھا۔
+ There are no comments
Add yours