Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete
Episode No 21
حناوے از نور راجپوت
دیکھو خضر بھائی کی اور شاہ و یز بھائی کی دونوں شام کو حیدر آباد کیلے نکل رہے ہیں زمینوں کو دیکھنے_
حیدر اسلام آباد گیا ہے اسکا انٹرویو ہے بخت بھائی ویسے یہاں نہیں ہوتے_نمل آپی رات کو لیٹ آتی ہیں زیان بھی اپنے دوستوں کے ساتھ رات گئیے تک وقت بیتا تا ہے اور لیٹ گھر آتا ہے۔۔
عثمان چچا کی کل میٹنگ ہے شاید وہ رات دس گیارہ
بجے گھر آئییں باقی بچا امن۔۔ ہم اسے جیسا کہیں گے وہ کرلے گا۔۔ کوئی مسلہ ہی نہیں ۔۔
یہ بہترین موقع ہے۔۔ یہ ایڈوانچر کرنے کیلے اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا ھدی نے ساری خبریں رکھی ہوئی تھیں۔
مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔ یہ سارے لوگ را نا ہاؤس میں موجود ہوتے تب بھی میں یہ کام بنا کسی ڈر کے کر لیتی۔۔
تم لوگ اپنا سوچ لو۔۔ حناوے نے بے نیازی سے کہا۔۔ اور پھر توجہ پلیٹ میں رکھیں گرم مونگ پھلیوں کی طرف مرکوز کردی۔
ایک بار پھر سوچ لو تم دونوں اگر شاہ ویز کو پتا چل گیا نا تو ۔۔” منال کو شاہ ویز کی ناراضگی کی فکر تھی۔
سوچنا ہم سب نے ہے۔۔ کیونکہ ہم سب ساتھ ہیں۔۔ سمجھ آئی ۔۔”
هدی نے غصے سے کہا۔
پندرہ سے بیس منٹ جنگل تک پہنچنے میں لگیں گے اور اتنے ہی واپس آنے میں۔۔ اور پانچ سے دس منٹ حناوے کے وہاں ڈانس کرنے میں۔۔۔
جسے ہم ریکارڈ کرینگے۔۔
ہاں یہ تو فلم کے شاٹ کی طرح ہو گا۔۔ ھدی کافی پر جوش تھی۔
، لیکن ہم جائیں گے کیسے ؟؟ سماب نے پوچھا تھا۔
میں بتاتی ہوں آو میرے ساتھ۔۔” ھدی کمرے سے باہر نکلی تھی اور اسکے پیچھے وہ تینوں بھی۔
وہ چاروں اپنی کم سنی اور پاگل حرکتوں کی وجہ سے کچھ سوچ نہیں پارہی تھیں۔
انہیں معلوم نہیں تھا انکا یہ ایڈوانچر بہت مہنگا پڑنے والا تھا ایک ایسے طوفان کو آواز دینے جا رہا تھا جس کی زد میں سبھی آنے والے تھے۔
تیز کچے پکے راستے پر دوڑتی گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔
خضر نے اچانک گاڑی کے سامنے آنے والے شخص کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئیے گاڑی کو بریک لگائی تھی۔ لیکن گاڑی پھر بھی اس شخص کو ہٹ کر تھی۔
وہ ایک جھٹکے سے باہر نکلا تو ایک عورت سڑک پر پڑی تھی۔ مٹی سے اٹا چہرہ اور کپڑے
آپ ٹھیک ہیں آپکو لگی تو نہیں ؟؟” خضر نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
مار دیا ۔۔ مار دیا۔۔ ” وہ ہاتھ میں عینک کا ٹوٹا فریم لے بڑ بڑارہی تھی۔
صد شکر اسے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ شاہ ویزہ گاڑی میں ہی بیٹھا تھا۔
ارے صاحب یہ پاگل ہے۔۔ اسکو چھوڑیں ایسے ہی بھاگتی رہتی ہے۔۔”
برگد کے درخت کے نیچے لگے نلکے پر ایک شخص ہاتھ دھو رہا تھا۔
خضر کو راحیلہ کے پاس بیٹھا دیکھا تو اس نے بتانا ضروری سمجھا۔ خضر نے پلٹ کر آواز کی سمت دیکھا جہاں ایک چھوٹی سی درگاہ تھی۔
“ مار دیا ۔۔ مار دیا۔۔ ” راحیلہ بس ایک ہی جملہ دہرا رہی تھی۔ خضر نے کندھوں سے پکڑ کر اسے نیچے سے اٹھایا۔
مار دیا۔۔ میرے اویس کو مار دیا۔۔ ”
خضر کو ہمدردی جتاتے دیکھ کر وہ خضر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔ اس سے پہلے خضر کچھ کہتارا حیلہ ٹوٹی عینک کا فریم سینے سے لگائے درگاہ کی طرف بڑھ گئی ۔
کون ہے یہ لڑکی ۔۔؟؟”
خضر نے اس آدمی سے پوچھا تھا۔
وہ راستہ دیکھ رہے ہیں صاحب۔۔ جو ملکوں کے گاؤں کی طرف جاتا ہے۔۔” ادھر ہی کسی ایک گاؤں سے ہے۔۔ ملکوں کے بگڑے ہوئیے سپوت نے یہ لڑکی کے ہونے والے شوہر کو مار دیا تھا۔۔ اسکے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔۔ بس تب سے اس لڑکی نے اپنی ذہنی توازن کھو دیا۔۔۔ ۔۔۔ بہت برا ہوا بیچاری کے ساتھ۔۔
آدمی نے افسوس کرتے ہوئے بتایا تھا۔
اسکی بات سن کر ضبط کی وجہ سے خضر کے جبڑے بھینچ گئی ہے۔۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ملکوں کے کس سپوت کا یہ کام تھا۔
میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں امن ملک۔۔ تمہارا ظلم حد سے آگے نکل گیا ہے۔۔ خضر دل ہی دل میں امن ملک کے تصور سے گویا ہوا تھا اور پھر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا جس میں بیٹھا شاہ ویزا سکے یوں باہر نکلنے اور پھر لوگوں سے باتیں کرتے دیکھ کر کوفت میں مبتلا ہو چکا تھا۔
شش۔۔ شور مت کرو آہستہ آہستہ چلو۔۔ کسی کو پتا نہیں چلتا چاہیے۔۔”
سبھی اپنے کام میں مصروف ہیں۔۔ وہ چاروں آگے پیچھے حناوے کے کمرے سے باہر نکلی تھیں انکا رخ اب نمل کے کمرے کی طرف تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ اندھیرا پھیلنا شروع ہوا۔
نمل کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ کھڑ کی کی جانب بڑھیں جو گھر کے پچھلے جانب کھلتی تھی۔
ھدی نے ہاتھ بڑھا کر کھڑ کی کو کھولا۔ اور نیچے جھانکا۔
جہاں امن تین سائیکلیں لئے کھڑا تھا۔ اور لمبی لکڑی کی سیڑھی دیوار لگی تھی جو کھڑ کی تک آرہی تھی۔
سب سے پہلے ھدی کھڑکی سے سیڑھی پر اتری اور آہستہ آہستہ نیچے اتر گئی ۔
اسکے بعد وہ تینوں باری باری نیچے اتر چکی تھیں۔
حناوے اپنی سائیکل پر بیٹھ چکی تھی۔ امن کے پیچھے سماب بیٹھی اور منال کے پیچھے ھدی۔۔
ان پانچوں کا دل دھڑک رہا تھا لیکن وہ سب کافی پر جوش تھے۔
گھر کے پیچھے والا سارا حصہ خالی تھا۔ جو ایک میدان کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اس سے آگے دور جہاں تک نگاہ جاتی شاہ بلوط کے جنگلات نظر آتے
تھے۔ ایک دوسرے کو اشارہ کرنے بعد تینوں نے اپنی سائیکلیں آگے بڑھادی تھیں
، چھوڑو مجھے ۔۔” دولڑکوں کے شکنجے میں پھنسی لڑکی چلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
منہ بند کرو اس کا مجھے شور نہیں پسند ۔۔ “
امن نے چلا کر کہا تھا۔ پیچھے بیٹھے اسکے دوست نے لڑکی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسکی چیخ کا گلا گھونٹا۔
اونچے نیچے پتھریلے راستے پر گاڑی گھنے جنگل سے گزر رہی تھی۔ گاڑی امن خود چلا رہا تھا۔
ہر الٹے کام میں امن سب سے آگے ہوتا تھا۔ ابھی بھی پتا نہیں اپنے دوست کی کس دشمنی کی بنا پر وہ ایک مشہور ایڈووکیٹ کی بیٹی کو اٹھالا تھا۔ جنگل سے گزرنے والا یہ راستہ انہیں محفوظ لگا تھا اسی لئیے گاڑی اب جنگل سے گزرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔
امن کی زیرک نگاہیں سامنے راستے پر تھیں۔ اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رکی راستے پر سامنے ایک جگہ روشنی تھی۔۔
اور وہاں ایک لڑکی تھی۔۔ غور کرنے پر امن کو محسوس ہوا کہ لڑکی رقص کر رہی تھی۔
کیا ہوا امن۔۔؟؟
اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے قدیر نے پوچھا تھا۔ امن کچھ نہیں بولا۔ وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں گاڑی سے باہر آیا تھا۔
گاڑی کی ہیڈ لائیٹس کی روشنی میں لڑکی کا وجود مزید واضح ہوا تھا سفید فراک پہنے، ہاتھ پاؤں پر مہندی لگی ہوئی ۔۔
گھنگروؤں کی چھنکار کی آواز جنگل کی ہولناک خاموشی میں صاف سن سکتا تھا۔۔۔
دھیمی آواز میں میوزک بج رہا تھا صرف میوزک تھا کوئی گانا نہیں تھا اور وہ بے خود سی کسی لچکدار ڈالی کی طرح جو تیز ہوا کے باعث جھومتی رقص کر رہی تھی۔
اتنا خو بصورت رقص جس میں ایک جنون تھا۔۔ ایک پاگل پن اور اتناہی خوبصورت چہرہ ۔۔۔ امن ملک کے ہوش اڑانے کیلے کافی تھا۔
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
” جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طر ز و طور عشق کے تیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
گر پرستش خدا کی ثابت کی
کس صورت میں ہو بھلا ہے عشق
دلکش ایسا کہاں ہے دشمن جاں
مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق
ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
کوئی خواہاں نہیں محبت کا
تو کہے جنس ناروا ہے عشق
میرجی زرد ہوتے جاتے ہو کیا
کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہو کیا
کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
کی صدا میں ایک عالم میں گونج گئی تھیں اور امن ملک بت بنا کھڑا تھا۔
کہتے ہیں جو عشق وہ وار بہت کاری ہوتا ہے جو پہلی نظر میں گھائل کرے۔ انسان اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا اور عشق اپنا کام کر جاتا ہے۔ اسکا خنجر انسان کے اندر تک اتر جاتا ہے نس نس میں لہو کی جگہ عشق بہنا شروع کر دیتا ہے۔
اور محبتوں کا سودا کرنے والے کو عشق ہو جائے اس شخص کی اس سے بڑی بد نصیبی کیا ہو گی۔ اور آج سے امن ملک کا نام بد نصیبوں کی لسٹ میں سر فہرست لکھا جانے والا تھا۔
حناوے کیلے یہ کام زیادہ آسان نہیں تھا۔ شاہ بلوط کے جنگل میں جہاں زمین پتھریلی تھی انہیں کوئی ہموار جگہ نہیں مل رہی تھی۔
کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد انہیں جنگل سے گزرنے والا ایک راستہ ملا تھا جو ہموار تھا اور کچھ صاف بھی تھا۔
امن، ھدی، منال اور سماب چاروں درختوں کی اوٹ میں کھڑے تھے۔ ھدی کے موبائل میں میوزک بج رہا تھا۔ اور حناوے نے دھڑکتے دل کے ساتھ پانچ منٹ کے اس میوزک پر بے خود ہو کر رقص کیا تھا۔
امن سمیت وہ تینوں ہو نکوں کی طرح حناوے کو ہی دیکھ رہی تھیں۔
اور سماب اسکی ویڈیو بنارہی تھی۔
یہ حنا وے رانا ہی ہے نا ؟؟
امن کی زبان پر کھجلی ہوئی تھی اور اس نے حیرت سے پاس کھڑی منال سے پوچھا تھا۔
مجھے تو خود یقین نہیں ہو رہا۔۔ ” منال نے حیرت سے جواب دیا تھا۔
وہ طوائف کے روپ میں غضب ڈھارہی تھی۔ بس اسکے رقص میں طوائفوں کی طرح دھیما پن نہیں تھا ایک جنون ساتھا۔
ابھی وہ چاروں یہی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک گاڑی کی آواز ابھری تھی اور پھر ایک جھٹکے سے گاڑی حناوے سے کچھ فاصلے پر رکی تھی۔ پرر گاڑی کی ہیڈ لائٹس حناوے کے چہرے پر بھی پڑی تھیں لیکن وہ رک نہیں سکتی تھی۔
اسے اپنا پانچ سے سات منٹ کا یہ رقص مکمل کرنا تھا۔ خوف کے باعث دل کانپ رہا تھا لیکن وہ حناوے رانا تھی اس نے رکنا نہیں سیکھا تھا۔
یہ کون لوگ آگئے۔۔؟؟ منال نے درخت کے پیچھے سے چھپ کر گاڑی کی طرف دیکھا تھا لیکن اسکی ہیڈ لائیس کی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کچھ دیکھ ہی نہیں پائی ۔
دو منٹ بعد میوزک بند ہوا تھا اور جیسا ایک سکتہ ٹوٹا تھا۔ حناوے کے قدم ساکت ہوئے۔ اس نے دھڑکتے دل کے آنکھوں پر ہاتھ کا سایہ کر کے گاڑی کی طرف دیکھا لیکن تیز روشنی کے باعث کچھ نہیں دیکھا۔
حناوے جلدی آو اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔۔ ” امن کی آواز ابھری تھی اور حناوے اپناڈو پٹہ درست کرتی انکی طرف بڑھ گئی ۔
سات بج چکے ہیں۔۔ ” هدی نے وقت دیکھا تھا۔ اور سردی کا موسم کے ہونے کے باعث سات بجے ہی کافی اندھیرا چھا گیا تھا۔ وہ پانچوں تھوڑے فاصلے پر رکھیں اپنی سائیکلوں کی طرف بھاگے اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ واپسی کے راستے پر ہولیے۔
میوزک کب بند ہوا۔ وہ لڑکی کب رکی۔۔
اور کب وہاں سے گئی ی امن ملک کو کچھ ہوش نہیں تھا۔
قدیر نے بالآخر گاڑی سے باہر نکلنے کے بعد امن کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔
امن کیا ہوا ہوش میں آؤ ۔۔ ” امن کو فق چہرے کے ساتھ کھڑے دیکھ کر قدیر دھیمی آواز میں چلایا۔
ہا۔۔ ہاں۔۔” امن کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ اب وہ ہو نک بنے قدیر کو دیکھ رہا تھا۔
کیا ہوا۔۔؟؟
قدیر نے پوچھا۔
امن نے جھٹکے سے دوبارہ اسی طرف دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے حناوے رقص کر کے گئی تھی۔
تم نے دیکھا وہ لڑکی ۔۔” مشکل سے الفاظ امن کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔
ہاں وہ تو جا چکی ہے۔۔”
قدیر نے عام سے لہجے میں کہا۔ جبکہ امن اب بھی اسی جگہ کو دیکھ رہا تھا۔ اسے وہ اب بھی وہیں نظر آرہی تھی۔
چلو چلتے ہیں۔۔” قدیر اسکا بازو تھامے گاڑی کی طرف بڑھا تھا۔ وہ جان ہی نہیں سکا تھا کہ امن ملک کے ساتھ ہوا تھا۔
پچھلے چار پانچ منٹ میں وہ اندر تک ساکت ہو گیا تھا۔
تم رہنے دو میں ڈرائیو کرتا ہوں گاڑی۔۔ ” قدیر نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا اور امن کو دوسری جانب بٹھایا۔
امن کی حالت کو دیکھتے ہوئے پیچھے بیٹھے اسکے دوست کالڑکی کے منہ پر رکھا ہاتھ ڈھیلا پڑا تھا۔
جانے دو مجھے۔۔ پلیز چھوڑ دو۔۔ ” وہ بری طرح سے رورہی تھی۔ التجائی کر رہی تھی۔ امن ایک دم چونکا تھا۔ اس نے پلٹ کر لڑکی کو دیکھا تھا۔ اور پھر حکمیہ انداز میں بولا تھا۔
جانے دوا سے۔۔”
امن کی بات سن کر قدیر نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“ یہ تم کیا کہہ رہے ہوا من ۔۔” اسکے دوست حیرا ن ہوئے تھا۔
میں نے کہا جانے دو۔۔۔”
وہ دھاڑا تھا۔
اور پھر قدیر نے پیچھے بیٹھے لڑکے کو اشارہ کیا۔ اس نے گاڑی سے اتر کر لڑکی کو باہر نکالا اور پھر اسے جانے دیا۔
لڑکی تو اس کرشمے پر حیرت سے دنگ رہ گئی تھی۔
وہ بنا کچھ سوچے سمجھے پیچھے کی جانب بھاگی تھی۔ اسکے نظروں سے اوجھل ہونے پر قدیر نے گاڑی آگے بڑھادی۔
جبکہ امن نے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا لیا تھا۔ اسکی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔
کوئی کی سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اچانک امن کو ہوا کیا تھا۔ گاڑی میں گہری خاموشی تھی جبکہ قدیر سپاٹ چہرے کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا