Table of Contents
Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete
Episodes 1 to 7
حناوے از نور راجپوت
کوئی پوچھتا امن ملک سے کہ محبوب کو رقیب کہ ساتھ دیکھنا کیسا تھا
تو وہ بتاتا کہ بلکل ایسے جیسے انسان اپنی تمام رگوں کو کاٹ ڈالے
اور پھر زخموں پر نمک چھڑک دے خون قطرہ قطرہ بہتار ہے
انسان ہر پال تڑپتا ر ہے لیکن جان نہ نکلے۔ بلکل ایسا تھا۔
لیکن وہ گنگ ہو گیا تھا۔ ۔ زبان تالو سے جا چکی تھی وہ اب بولنے کے قابل کہاں رہا تھا۔۔ وہ بھلا کسی کو کیا بتاتا ۔۔
کس کا خیال کو نسی منزل نظر میں ہے
صدیاں گزریں، زمانہ سفر میں ہے۔۔
چہرے پر برہمی ہے، تبسم نظر میں ہے
اب کیا کمی تباہی قلب و جگر میں ہے۔۔
تسلیم حسن دوست معصو میاں مگر
شامل تو کوئی فتنہ شام و سحر میں ہے۔۔
يا رب ! وفائے عذر محبت کی خیر ہو
نازک سا اعتراف آج بھی اس نظر میں ہے۔۔
سمجھے تھے دور تجھ سے نکل جائے گے کہیں
دیکھا تو ہر مقام تیری راہ گزر میں ہے۔۔
کاریگز ان شعر سے پوچھے کوئی کی جگر !!
سب کچھ تو ہے ، مگر یہ کمی کیوں اثر میں ہے۔۔
پورے کمرے میں سگریٹ کا دھواں پھیلا تھا۔۔ وہ اندھیرا کیے آرام دہ کرسی پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔
ذہن، دل و دماغ پر آج بھی ایک نام چھایا تھا۔۔ وہ وقفے وقفے سے سگریٹ کے کش لگا کر دھواں فضا میں اُچھال رہا تھا۔۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
آجاؤ۔۔ گھمبیر آواز میں کہا گیا۔”
چھوٹے ملک۔۔۔”
خان نے اندر آکر ہاتھ ادب سے باندھ کر اسے مخاطب کیا۔
ہم۔۔ بولو۔۔“ وہ کھوئے کھوٹے سے لہجے میں بولا تھا۔”
“ وہ لوٹ آئی ہے چھوٹے ملک۔۔”
خان نے سر جھکائے کہا۔
کون ؟وہ بے زاری سے پوچھ رہاتھا۔ خان اک خاص ملازم تھا ہے اسکے کمرے میں کسی بھی وقت آنے کی اجازت تھی۔
وہی چھوٹے ملک ۔۔ جس کا نام زبان پر لانے سے آپ نے منع کیا ہے “
خان نے بتایا۔
جھولتی کرسی ایک دم تھی۔ وہ جیت سے ان کو دیکھ رہاتھا- وہ حیرت سے خان کو دیکھ رہا تھا۔ جو اندھیرے میں اسے کھڑا تو نظر آرہا تھا لیکن اسکے تاثرات وہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
وہ قہر بن کر لوٹی ہے چھوٹے ملک۔۔ قہر ۔۔”
سگریٹ نے اسکی انگلی کو جلا یا تو وہ چونکا۔
جاؤ تم ۔۔ سادہ سے لہجے میں کہا گیا۔۔”
خان واپس چلا گیا۔۔۔ وہ سگریٹ ایش ٹرے میں پھینک چکا تھا۔۔ آرام دہ کرسی ایک بار پھر سے جھولنے لگی۔۔
اب وہ اسکی فون کال کا انتظار کر رہا تھا۔۔ اسے پورا یقین تھا وہ اسے فون ضرور کرے گی۔
‐————————-
اسکا یقین درست تھا۔۔ ایک گھنٹے بعد اسکے موبائل پر بیل ہوئی ہی۔ سامنے میز پر رکھا موبائل اس نے اٹھایا اور بنا نمبر دیکھے کال ریسیو کر کے اسے کان سے لگایا۔ چہرے پر دلفریب سی مسکراہٹ ابھری۔۔
کیسی ہو جان۔۔ ؟؟ “
محبت بھرے لہجے میں اس نے پوچھا۔ دوسری طرف گہری خاموشی چھائی کی تھی۔۔ پچھلے ساڑھے پانچ سالوں سے میں نے نا ایک بار بھی نمبر نہیں بدلا۔۔ ایک پل کیلے ہی سے نمبر بند نہیں ہونے دیا۔ مجھے یقین تھا تم مجھے فون ضرور کرو گی۔۔
میں نے ہر ایک پل دعا کی ہے تم زندہ رہو ۔۔ جب تک میں چاہوں تب ” !! تک۔۔ میں نے دعا کی تھی کی تمہیں کچھ نہ مسٹر ملک۔۔ نفرت سے بھری آواز ابھری۔۔ مگر اسے آج بھی اسکی آواز میں وہی سحر محسوس ہوا تھا۔۔ ایک سکون سا اندر اتر گیا تھا۔
تمہاری نفرت میرے عشق سے جیت نہیں سکتی۔۔ میں بس تمہارا انتظار ” کر رہا تھا۔۔۔ میں جانتا تھا تم لوٹ آؤ گی۔۔ میں بہت خوش ہو جن ۔۔
ششش۔۔ میرا نام مت لینا اپنی زبان سے۔۔ کوشش بھی مت کرنا۔۔” وہ دھاڑی۔۔
ھاھاھا۔۔ دل پر چھپا ہے۔۔ کیسے مٹاؤ گی۔۔ ” وہ اسکی بات سے محظوظ ہوا تھا۔
کچھ دیر تک خاموشی چھائی کی رہی اور پھر کال ڈراپ کر دی گئی ی۔ وہ مسکرا کر فون کو دیکھتا رہا۔۔ اور پھر اس نام کو جو سکرین پر چمک رہا تھا۔
———————————————–
شام کی سرخی نے گاؤں کو مزید خوبصورت بنایا تو پرندوں نے اپنے اپنے گھر کا رخ کیا۔۔
گاڑی گاؤں کی طرف جانے والے راستے پر تیز رفتار سے بھاگ رہی تھی۔ کاٹن کے کف لگے سوٹ میں اندر بیٹھا شخص اضطراب کی کیفیت میں موبائل پر انگلیاں چلا رہا تھا۔۔ اسکے چہرے پر پریشانی پھیلی تھی۔ اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔۔
کیا ہوا شیر دل۔۔؟؟ اُس نے پوچھا۔
صاحب وہ۔۔” شیر دل نے کچھ کہنا چاہا تبھی اسکی نظر سامنے کھڑی گاڑی پر پڑی۔
وہ اس گاڑی کو پہچان گیا تھا اور پھر ایک جھٹکے سے نیچے اترا۔۔ سامنے والی گاڑی میں سے وہ اتری۔۔ #خانم_بیگم۔۔ اپنے پُر وقار سراپے کے ساتھ۔۔ سر پر ڈوپٹہ جمائے اور کندھوں پر بکھری شال ۔۔ وہ قدم قدم چلتی اسکی طرف بڑھ رہی تھی۔۔
گاڑیوں کے چلنے کی وجہ سے اڑنے والی دھول اب کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔
خانم بیگم کی چال میں غرور تھا۔۔ فتح تھی۔۔
کیسا لگ رہا ہے ہار کر #رانا_خیام_صاحب۔۔۔ وہ بھی وزیر اعلی سندہ کے ” عہدے سے۔۔؟؟ وہ اسکے قریب آکر پوچھ رہی تھی۔۔ لہجے میں طنز تھا۔۔
خیام رانا کی نظریں جھکی تھیں۔ وہ برسوں بعد بھی ویسی کی ویسی تھی۔۔ وہی نخوت ، وہی غرور ، وہی و قار۔۔۔
، ظلم کے سر پر جیتنے والے کو فاتح نہیں کہا جاتا خانم بیگم ۔۔” خیام رانا نے جواب دیا۔
اور جو بیچ راہ میں چھوڑ جائے انہیں کیا کہا جاتا ہے۔۔ ظالم ، بے وفا یا پھر بد ” ذات۔۔؟؟ خانم بیگم نے انتہائی غصے سے کہا۔۔ البتہ لہجے میں کہیں اذیت گھلی تھی۔۔”
وہ دایاں ہاتھ اٹھ کر دھاڑا تھا۔۔ خیام رانا کی دھاڑ گاؤں کے کچے پکے راستوں پر گونج کر رہ گئی تھی۔۔ جھکی گردن ایک دم اٹھی تھی۔۔ آنکھوں میں سرخی پھیلی تھی۔
آپ جاسکتی ہیں۔۔ ”
خیام رانا نے کہا اور ڈرائیور کو اشارہ کیا۔۔ ڈرائیور نے گاڑی پکی سڑک سے کچے راستے پر اتار لی۔۔ سڑک چھوٹی تھی۔۔ ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی۔۔ اور خیام رانا نے پہلے اسے گزرنے کیلے راستہ دے دیا تھا۔
——————-
ایس پی صاحب سمجھنے کی کوشش کریں۔۔ ہم امن ملک پر یوں ہاتھ نہیں ڈال سکتے جب تک ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو۔۔ کمشنر نے اپنے سامنے بیٹھے اپنے سب سے چہیتے آفیسر سے کہا۔
پر سر اس پر قتل کا مقدمہ ہے۔۔ میں اسے کسی حال میں نہیں چھوڑ سکتا۔۔
وہ شدید غصے میں تھا۔
رانا صاحب۔۔ میں جانتا ہوں۔۔ لیکن ایک وزیر اعلیٰ کے پوتے پر ہاتھ ڈالنا۔۔ اسکو گرفتار کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔
کمشنر نے اب کی بار اسے پیار سے سمجھایا۔۔
سر اسکے جرائم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔۔ اور یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔
جانتا ہوں لیکن ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔۔ جو لوگ آج اسکے خلاف رپورٹ درج کروا کے گئیے ہیں اور گواہی دینے کو تیار ہیں اسکی ایک نظر پر سب کچھ الٹ جائے گا۔۔ اور ہمیں ذلت اٹھانی پڑے گی۔۔۔
کمشنر نے اسے سمجھایا۔
سر قانون کو تو اس نے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔۔ میں پہلے بتا رہا ہوں۔۔ اس شخص کا کسی دن ان کاو نٹر ہو جائے گا میرے ہاتھوں۔۔ ایس پی خضر حیات رانا نے انتہائی کی غصے سے کہا۔
اور کمشنر اسکی بات سن کر مسکرادیا۔ اچھا کرتے ہیں کچھ ۔۔ تم اپنا غصہ ٹھنڈا کرو۔۔ کمشنر نے اسے
پر سکون کرنے کی کوشش کی۔۔
مزید باتیں کرنے کے آدھے گھنٹے بعد وہ کمشنر کے آفس سے باہر آیا تھا۔
خیام رانا ہار گئے ہیں-
ایک سپاہی نے دوسرے سے کہا۔۔ لہجہ دھیمہ تھا مگر وہ صاف سن سکتا تھا۔۔
اور ہمارے ایس پی کو بھی شاید اسی بات کا غصہ ہے کہ اسکے نانا ہار گئے ہیں۔۔ اسی لئی وہ مسٹر امن ملک کو گرفتار کر کے بدلا لینا چاہتے ہیں۔۔
دوسرے کی بات سن کر ایس پی خضر کا دماغ بھک سے اڑا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ان تک پہنچتا۔۔ موبائل پر آنے والی کال نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور
وہ سر جھٹک کر کال ریسیو کرتے ہوئی سے آگے بڑھ گیا۔ ان دونوں سے وہ بعد میں حساب برابر کرنے کا سوچ رہا تھا۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے چمچے تھے۔
—————————————-
میں چاہتی ہوں امن کہ اب تم شادی کر لو۔۔ اب تمہاری شادی کی عمر ہوگئی کی ہے۔۔
مسنر ملک نے اپنے اکلوتے بیٹے کے بالوں کو سہلاتے ہوں کہا جو اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا۔
اووری یلی مام ۔۔؟“ وہ حیرت سے کہتا اٹھ بیٹھا۔ ”
کتنی شادیاں کریں گی آپ میری۔۔ کیونکہ آپ جانتی ہیں کہ ایک رات گزارنے کے بعد دوسرے دن میرا اسی لڑکی کو دیکھنے کو نا تو میر ادل کرتا ہے اور نامیں دیکھتا ہوں۔۔ پھر تو ہر روز آپکو میری ایک نئی کی شادی کرنی ہو گی۔۔
اس نے اپنی ہی بات پر آخر میں چھت پھاڑ قہقہہ لگایا تھا۔۔ اور مسنر ملک اپنے بیٹے کے منہ اس طرح کی بات سن کر سرخ ہوگئی کی تھیں۔۔
وہ افسوس کر رہی تھیں کہ انکی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی کی تھی۔۔
بیٹا۔۔ بیویاں بدلنے کیلے نہیں ساتھ نبھانے کیلے ہی سے ہوتی ” ہیں۔۔ ! ! ان سے زندگی کی رونق بڑھتی ہے۔۔ انہوں نے اپنے کھڑ دماغ بیٹے کو ایک بار پھر سمجھانا چاہا۔
او و مام کام آن۔۔ بند کریں یہ ٹاپک۔۔ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں ” لڑکیوں کو کہ وہ کتنا ساتھ نبھاتی ہیں۔۔ ایک رات میرے ساتھ گزارنے کے بعد وہ کسی اور کے ساتھ ہوتی ہیں۔۔
اور مسز ملک میں اپنے بیٹے کے منہ سے اس طرح کی باتیں سننے کی مزید ہمت نہیں تھی۔ وہ بنا کچھ کہے آرام سے اٹھ کر اسکے کمرے سے چلی گئی ہیں۔
امن ملک کو بھا جائے شاید وہ لڑکی ابھی بنی ہی نہیں۔۔ اور امن ملک لڑکیوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔۔ اس نے سگریٹ جلا کر دھواں فضا میں اچھالتے ہوئے کہا۔
“خان۔۔۔ !!”
پورے رعب سے خان کو پکارا گیا۔
جی چھوٹے ملک ۔۔” خان کسی بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا۔۔
ڈرنک بناو ۔۔۔ اس نے خان کی طرف بنا دیکھے کہا اور موبائل نکال کر اس پر انگلیاں چلانے لگا۔۔
———————————————
یا اللہ جی آج مجھے بچا لینا۔۔ آج آپ میری عزت رکھ لینا۔۔ پکا پر امس آئینده چوری گھر سے باہر نہیں نکلوں گی۔۔
ہائے آج تو میر ارزلٹ بھی پتا نہیں کیا بنا ہو گا۔۔ بس اللہ پاک آپ اتنا سا رحم کر دیں کہ رانا ہاوس کی بیگمات کو پتا نا چلے کہ میں گھر سے غائب ہوں۔۔
خاص طور پر میری مما اور شاہ ویز بھیا کو۔۔
وہ سائیکل کے پیڈل پر تیز تیز پاؤں چلاتے شاہ بلوط کے جنگل میں سے گزر رہی تھی۔۔
ڈوپٹہ چہرے پر اچھی طرح سے لپیٹا تھا تا کہ اسے دیکھ کر بھی کوئی ی نا پہچانے۔۔ وہ ایسے لگ رہی تھی جیسے بینک لوٹ کے آئی کی ہو۔۔
یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ اگر تم سب جلدی میرے ہاتھ آ جاتیں تو آج مجھے دیر نا ہوتی۔۔
اس نے سائیکل کے آگے لگی ٹوکری میں رکھی مچھلیوں سے کہا جو شاپر میں لپٹی تھیں اور جنہیں وہ جنگل کے دوسرے کنارے پر بہتی ندی سے پکڑ کر
لائی تھی۔
سائیکل کے ٹائر کے نیچے ایک پتھر آیا۔۔ اسکی سائیکل لڑکھی اور وہ سائیکل سمیت نیچے گری۔۔ اسکی چیخ جنگل میں گونج کر رہ گئی ۔
ہمت کر کے اٹھی تو دیکھا پوری بازو پتھر سے ٹکرانے کے باعث چھل گئی کی تھی۔۔ وہ چوٹ کو نظر انداز کرتی ہوئی کی سائیکل کی طرف بڑھی جسکی چین اترگئی کی تھی۔
یہ ساری مصیبتیں مجھ پر کیوں آتی ہیں۔۔ “
اس نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا اور چین چڑھانے کی ناکام کوشش کی۔۔
کیونکہ تم خود ایک بہت بڑی مصیبت ہو #حناوے_رانا۔۔” اسکے پیچھے سے آواز ابھری۔۔ اور حناوے حیرت سے اچھلی۔ پیچھے دیکھا تو وہ اسے ہی گھور رہا تھا۔
امن میرے پیارے بھائی تم آگئے۔۔
جلدی سے میری مدد کر دو دیکھو مجھے چوٹ لگ گئی کی ہے۔۔“
حناوے نے اپنے سے تین سال چھوٹے بھائی کی کی منت کی۔
ہر گز نہیں۔۔ امن نے دوٹوک جواب دیا۔ ”
پلیز پلیز پلیز ۔۔ اب وہ منتوں پر اتر آئی کی تھی۔ ”
پھر جو میں مانگوں گا وہ تمہیں مجھے دینا ہو گا۔۔ ” امن نے شرط رکھی۔
ہاں ٹھیک ہے۔۔ اب جلدی سے چین چڑھاؤ ۔۔” حناوے نے اسے ٹالنے کے انداز میں کہا۔
ایسے نہیں۔۔ پہلے وعدہ کرو۔۔ تم کب بدل جاؤ پتا نہیں چلتا۔۔ ” امن بھی کم نہیں تھا۔
تمہیں اپنی بہن پر یقین نہیں ہے کیا۔۔؟؟‘
حناوے نے معصومیت سے ” پوچھا۔
مجھے حناوے پر بالکل بھی یقین نہیں۔۔ ” امن نے جواب دیا۔
اس سے پہلے کہ حناوے کچھ کہتی اچانک ایک طرف بھونکنے کی آواز آئی ۔۔ جیسے دو کتے آپس میں لڑ رہے ہوں۔۔
اور حناوے کا رنگ فق ہوا۔۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے امن کو دیکھا۔
امن خود ڈر گیا تھا۔۔ اس نے فٹافٹ جھک کر سائیکل کی چین چڑھائی ۔۔ اور سائیکل پر بیٹھنے کے بعد حناوے کو اشارہ کیا۔۔
وہ اپنی مچھلیاں چھوڑ کر جو نیچے گر چکی تھیں جھٹ سے سائیکل پر بیٹھی اور امن نے سائیکل بڑھادی۔۔ مگر انکی بد قسمتی کہ ایک کتا انکے پیچھے لگ چکا تھا۔۔
حناوے نے تو چیخ چیخ کر جنگل کے سارے جانوروں کو ڈرا کر رکھ دیا تھا۔۔
من تیز چلاؤ ۔۔” وہ چیخ رہی تھی اور امن اپنی پوری قوت سے سائیکل بھگانے میں مگن تھا۔
مگر جو کتا انکے پیچھے لگا تھا وہ انتہائی ڈھیٹ تھا شاید۔۔ تبھی پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔
ا من امن۔۔ مجال ہے جو حناوے کی چیخیں بند ہوئی کی ہوں۔ وہ مین روڈ کے پاس پہنچ گئے تھے جب کتے نے پیچھے کی طرف اڑتا حناوے کا ڈوپٹہ پکڑ کر کھینچا اور وہ دھڑام سے نیچے گری۔۔
اس سے پہلے کہ کتا اس پر حملہ کرتا ایک فائرکی آواز گونجی اور کتاڈر کر پیچھے ہوا۔۔
امن نے حواس باختہ ہو کر سائیکل روکی۔
اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ حناوے بیچاری ایک بار پھر نیچے پڑی زمین کو اپنا دیدار کروارہی تھی۔ دوسرے فائر پر کتا غراتا ہوا واپس بھاگ گیا۔ امن نے فائر کرنے والے کی طرف دیکھا وہ خضر تھا۔۔ انکی پھوپھو کا بیٹا جو پولیس کے یونیفارم میں سڑک پر ہاتھ میں پسٹل لیے کھڑا تھا۔
حناوے۔۔ امن اسے پکارتا ہوا اسکی طرف بڑھا۔ خضر بھیا جلدی آئے –
امن نے خضر کو پکارہ اور دوبارہ حناوے کی طرف
متوجہ ہوا۔
خضر نے ایک نظر نیچے گری حناوے کو دیکھا۔۔ اور پھر اسکے چہرے پر واضح ناگواری ابھری۔۔ رانا ہاؤس کی یہ وہ واحد لڑکی تھی جس سے اسے بہت چڑ ہوتی
تھی۔۔
وجہ اسکی حرکتیں تھیں۔۔
، خضر بھیا آئے نا۔۔ دیکھیں آپی سے اٹھا نہیں جارہا۔۔ ” امن نے ایک بار پھر اسے پکارہ-
نیچے گرنے کے باعث حناوے کے سر پر چوٹ لگی تھی۔ وہ اٹھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ خضر نے ایک گہری سانس لی اور پھر اسکی طرف بڑھا۔
یہ مصیبت بھی ابھی گلے پڑنی تھی۔۔ وہ بڑبڑا رہا تھا۔ ”
حناوے کو سہارا دینے کے بعد وہ اسے جیپ تک لایا تھا۔
بیٹھ جاؤ ۔۔”
خضر نے با مشکل اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔ اور حناوے شریفوں کی طرح گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ویسے بھی اسکی خضر سے پرانی دشمنی تھی۔ اور اس وقت وہ اسکے رحم و کرم پر تھی۔ اس لیے کوئی پنگا نہیں چاہتی تھی۔
مہمانوں کی آمد زور و شور سے جاری تھی۔ حویلی کے سارے مرد مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے۔۔
ایک وہ تھا جو بے زار ملکوں کی حویلی کو ڈلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ بہرام ملک نے اپنے جیتنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔۔
سا بیٹھا تھا۔۔ اسے حویلی میں منقعد کی گئی ی کوئی کی تقریب پسند نہیں آتی تھی۔
وہ تو حیدر آباد کم کم ہی آتا تھا۔۔ اسکا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزرتا تھا۔۔
تم یہاں بیٹھے ہو اور اور دادا ابو تمہارا باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔
ارحم ملک نے اسے ڈرائینگ روم میں بیٹھتے ہو ے کہا۔ ارحم ملک اور امن ملک دونوں کزنز تھے۔۔
مجھے یہاں کی رونقیں بالکل متاثر نہیں کرتیں۔۔”
امن نے جواب دیا۔
کیوں یہاں کسی چیز کی کمی ہے۔۔؟؟ ارحم نے پوچھا۔ ”
دنیا کی سب سے خوبصورت چیز کی۔۔ “ امن نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔ ” اسکا اشارہ لڑکیوں کی طرف تھا۔
باہر جا کر دیکھو۔۔ سارا حسن جیسے حویلی میں جمع ہو گیا ہے۔۔ “ ارحم نے ” اسے خبر دی۔
کیا واقعی۔۔؟؟ دادا ابو کب سے لڑکیوں کو اپنی دعوت پر بلانے لگے۔۔ امن کو حیرت ہوئی –
لڑکیوں کو نہیں انکے والدین کو بلایا جاتا ہے۔۔ اور والدین جانتے ہیں کہ ملک خاندان میں جوان لڑکے موجود ہیں۔۔
اس لئیے وہ اپنی بیٹیوں کو ساتھ لاتے ہیں تاکہ خوش قسمتی کوئی کی لڑکی ہمیں پسند آجائے اور پھر ۔۔۔
ارحم نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ جس پر دونوں کا قہقہہ ابھرا۔
بے و قوف لوگ۔۔” امن نے زیر لب کہا۔
اچھا اب تم جلدی آجاؤ باہر ۔۔ میں ذرا حسن کا نظارہ کرلوں۔۔
ارحم کہتے ہوئے چلا گیا۔۔ جبکہ امن دوبارہ سے موبائل کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
———————–
فیس بک کو اوپر نیچے کرتے ہوئیے اچانک اسکی نظر ایک پر وفائل پر پڑی۔۔ وہ چونکا۔۔
جناوی_رانا #
زیر لب اس نے نام دہرایا۔۔
حناوے۔۔۔
“ اس نے پھر زیر لب دہرایا۔۔” عجیب و غریب اور بہت ہی انوکھا سا نام تھا۔ لیکن اسے اچھا لگا۔۔
امن نے پروفائیل پر لگی تصویر چیک کی۔ وہ بھی بہت عجیب تھی۔۔
کچھ پر اسرارسی۔۔ وہ منظر کسی جنگل کا تھا۔۔ دھند میں لپیٹے شاہ بلوط کے اونچے اونچے درخت اس منظر کو پر اسرار بنارہے تھے۔۔
ایک لڑکی شال لیٹے کیمرے کے دوسری طرف رخ کر کے کھڑی تھی۔۔
وہ ابھی اس تصویر پر غور کر ہی رہا تھا جب اسکے دوستوں کی آواز ابھری۔۔
ہیلوا من۔۔” اسکا گروپ اسلام آباد سے حیدر آباد پہنچ گیا تھا۔۔ اور امن نے موبائل بند کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔۔
اب وہ مکمل طور پر اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں تھے۔۔
————————————————-
پلیز!!!
خضر بھیا گاڑی یہیں روک لیں۔۔ ” امن نے گاڑی چلاتے خضر سے کہا جسکے چہرے پر سنجید گی چھائی تھی۔
را نا ہاؤس کے ساتھ ہی حیات ہاؤس تھا جو رانا ہاوس محل جیسا تو نہیں تھا مگر کم بھی نہیں تھا۔
دونوں گھر ایک دوسرے کے سامنے تھے ۔۔ امن نے گاڑی حیات ہاؤس کے سامنے روکنے کا کہا۔
مگر کیوں۔۔۔؟“، خضر حیران ہوا۔ ”
وہ نا آج آپی لوگوں کا رزلٹ آیا ہے۔۔ منال آپی اور ھدی آپی کی سپلیاں آئی کی ہیں۔۔
گھر میں بیگمات نے عدالت لگائی ہوئی ہی ہے۔۔
اور ھدی اور منال آپی کی بے عزتی زور و شور سے جاری ہے۔۔ امن کی بات سن کر خضر کو نا چاہتے ہوئے بھی ہنسی آگ ہی کی تھی جسے وہ چھپا گیا تھا۔
تو ۔۔ ؟؟“ اس نے پوچھا۔ ”
تو یہ کہ اگر حناوے آپی اس حالت میں گھر جائے گی تو بیگمات کا پارہ مزید ہائی کی ہو گا۔۔
آپ کے گھر چلتے ہیں نا پھو پھو آپی کی مرہم پٹی کر دیں گی۔۔
بیشک امن اور حناوے کی ہر گز نہیں بنتی تھی لیکن اس وقت امن کو حناوے پر بہت ترس آ رہا تھا کیونکہ وہ بہت معصوم بن کر بیٹھی تھی۔۔ جیسے ہوا ہی
نا ہو۔۔
ٹھیک ہے۔۔” خضر نے نا چاہتے ہوئے بھی جیپ اپنے گھر کے سامنے روک دی۔۔ اور امن چھلانگ لگا کر باہر نکلا اور حناوے کی طرف بڑھا۔
ناشرم نام کی کوئی کی چیز بچی ہے تم لوگوں کے پاس۔۔؟؟ ایک یہی کمی رہ گنی تھی وہ اب پوری ہو گئی ہی۔۔ منال اور ھدی سر جھکائے کھڑی تھیں۔۔ دونوں کی سپلیاں تھیں۔۔ جبکہ سماب ایک طرف صوفے پر بیٹھی ہمیشہ کی طرح کھانے میں مگن تھی۔۔
البتہ وقفے وقفے سے وہ ایک نگاہ ان دونوں پر ڈال لیتی تھی جنکی آئن لائی ان بے عزتی کی جارہی تھی۔۔
شہناز تائی کی کی توپوں کا رخ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی ھدی کی طرف تھا جو انتہا کی نکمی نکلی تھی۔
سارے بہن بھائی کی اتنے لائق فائق۔۔ اللہ جانے تم کس پر چلی گی ہو۔۔
آپ پر مما۔۔ ھدی نے دل میں سوچا مگر کہا نہیں۔۔”
، نمل نے مجھے پہلے کم تنگ کیا ہوا جو رہی سہی کثر تم پوری کر رہی ہو۔۔” ماریہ بچی نے اب اپنی بیٹی منال سے کہا۔
نمل سے یاد آیا حناوے کہاں ہے۔۔؟“ فاریہ بیگم کو اب اپنی بیٹی کا خیال آیا تھا۔
اور حناوے کے نام پر بریانی کھاتی سماب کو اچھو لگا۔۔۔۔ اس نے بریانی کی پلیٹ سائیڈ پر رکھی اور دبے قدموں ڈرائینگ روم سے نکل روم سے نکل گئی ۔۔
ہاں البتہ منال اور ھدی کی بے عزتی بنا کسی وقفے کے جاری تھی۔
، تم اس وقت وہ بھی اکیلے جنگل میں کیا لینے گئی کی تھی حناوے۔۔
” رخسار پھو پھو جو کہ خضر رانا کی ماں بھی حناوے کی چھلی ہوئی کی کہنی پر مرہم لگاتے پوچھ رہی تھی۔
مچھلیاں پکڑنے گئی کی تھی پھوپھو ۔۔ “
حناوے نے رونی صورت بنا کر کہا۔
، مگر کیوں۔۔؟
” رخسار پھو پھونے حیرانی سے پوچھا۔۔ انہیں اپنے شہید بھائی کی اغوان رانا کی یہ بیٹی بہت عزیز تھی۔
ایسے ہی۔۔ میرا دل کر رہا تھا۔۔ “ حناوے نے جواب دیا۔
اس وقت گھر سے اکیلے نہیں نکلا کرتے بیٹا۔۔ اگر کچھ ہو جاتا تو۔۔” رخسار پھوپھو کو پریشانی ہوئی ۔
——————-
ارے پھو پھو جانی۔۔
آج جو سین میں نے دیکھا نا قسم سے آپ دیکھتی تو مزہ آجاتا۔۔
دو بار آپی نیچے گری تھی۔۔ امن اپنی جون میں واپس لوٹ آیا تھا اور اب وہ حناوے کا مذاق اڑا رہا تھا۔
تم چپ کر ور نہ میں تمہارا خون پی جاؤں گی۔۔“ حناوے نے غراتے ہوئے کہا۔
ہونہہ ۔۔
رسی جل گئی ی پر بل نہیں گئی ۔۔ ” خضر جو اپنی فائل اٹھانے کمرے میں آیا تھا حناوے کی بات سن کر چپ نا رہ سکا.. اور طنزیہ کہا۔
، تم تو چپ ہی رہا کرو مسٹر سٹریل۔۔”
حناوے نے سوچا مگر کہہ ناسکی۔۔
کیونکہ مقابل ایس پی خضر حیات رانا تھا۔۔ !!
جسکا نام ہی اگلے بندے کو چپ کروانے کیلئے سے کافی ہوتا تھا۔۔
———————————————–
کیا ہو ا پریشان ہیں آپ رانا صاحب۔۔؟
” قدسیہ بانو نے اپنے ہمسفر خیام رانا کو سر پکڑے لیٹے دیکھا تو پوچھا۔۔
ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔۔ پچھلے دس سالوں آپ وزیر اعلی کے عہدے پر قائم تھے۔۔ بہت دفعہ بہرام ملک کو شکست اٹھانی پڑی۔۔ اور اس بار وہ جیت گیا۔
قدسیہ بانو نے درست کہا تھا۔
بات ہار جیت کی نہیں ہے۔۔ بات یہ ہے کہ وہ ظلم کے سر پر جیتا ہے۔۔” جانے لوگوں نے میری دس سال کی محنت کو اتنی آسانی سے بھلا کر اسے ووٹ کیسے دے دیے۔۔
خیام رانا نے جواب دیا۔
کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔۔ برائی کی زور پکڑ جاتی ہے۔۔ فتح حاصل کر لیتی ہے۔۔ مگر یاد رکھیں ایک نا ایک دن اچھائی کی ہی غالب آتی ہے۔۔
قدسیہ بانو ایک جہاندیدہ خاتون تھیں۔۔ وہ دونوں اب دادا دادی بن گئیے تھے۔۔ مگر آج بھی ایک دوسرے کا ساتھ پوری ایمانداری سے وہ رہ رہے تھے۔
حسن بیٹے کا کتنی بار فون آچکا ہے۔ اس سے بات کر لیں آپ۔۔ میں کھانا لگواتی ہوں۔۔
وہ کہہ کر اٹھ گئی ہیں۔۔ لوگوں کی باتوں سے بچنے کیلے وہ اپنی حویلی میں آگیا تھا۔۔ فون آف کر دیا تھا۔۔ مگر پریشانی پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔
———————————-
سب کچھ ریڈی ہے میم۔۔ ان شاء اللہ اگلے ہفتے ہم
حیدر آباد کا چکر لگائیں گے۔ میں نے فائل تیار کر لی ہے کہ ہم نے وہاں کے دیہاتوں میں کیا کیا نوٹ کرنا ہے۔۔
نمل نے فائل ذلیخہ میم کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
اتنا قیمتی NGO کودیتی —
شکر یہ بیٹا۔۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے تم اس وقت کو دیتی ہو۔۔
ذلیخہ میم نے مسکرا کر کہا۔۔ اسے اپنے سٹاف کی یہ ور کر بہت پسند تھی جو بے غرض ہو کر کام کرتی تھی۔
شکریہ کی ضرورت نہیں ہے میم۔۔ یہ میرا فرض اور شوق دونوں ہیں۔۔”
نمل نے اطمینان سے جواب دیا۔۔ اس نے صحافت کی پڑھائی کی کی تھی مگر وہ اپنی مرضی اور شوق سے اب ایک این جی او میں کام کر رہی تھی۔
اچھا اب تم جاؤ ۔۔ کافی رات ہو گی ہے۔ گھر پر سب تمہارا انتظار کر رہے ہونگے۔۔
اور میم آپ۔۔ “ ذلیخہ میم کی بات پر اس نے پوچھا۔ ”
میں بھی چلی جاؤں گی۔۔ ڈرائیور لینے آتا ہی ہو گا مجھے۔۔ بلکہ تم ایسا کرو ابھی مت جاؤ ہم تمہیں ڈراپ کر دیں گے۔۔
نہیں میم اٹس اوکے ۔۔ میں چلی جاؤں گی۔۔ میراگھر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔۔
نمل نے جواب دیا اور اپنا بیگ اٹھایا۔
شب بخیر میم ۔۔“ وہ مسکرا کر کہتی آفس سے باہر نکل گئی ی۔۔ اور ذلیحہ میم سوچ رہی تھی کہ اس لڑکی سے انہیں اپنی اپنی سی مہک کیوں آتی ہے۔۔؟؟
——————————
کافی رات ہو چکی تھی۔ نمل نے اللہ کا نام لے کر گھر کی طرف چلنا شروع کیا کیونکہ کوئی کی ٹیکسی اسے اس وقت نظر نہیں آرہی تھی۔
وہ کسی سے لفٹ نہیں لے سکتی تھی۔ اور گھر کال کر کے کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ تھی ہی ایسی نرم مزاج سی۔۔ سب کا خیال رکھنے والی۔
وہ ابھی کچھ دور تک ہی گئی کی جب ایک گاڑی جھٹکے سے اسکے پاس آکر رکی۔۔ اور اسکا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔۔
گاڑی سے نکلنے والے شخص کو وہ پہچان چکی تھی۔ وہ شاہ ویزرانا تھا۔۔ بڑے تایا (حسن رانا ) کا بیٹا۔۔ اور نمل کا منگیتر ۔۔
اسے دیکھ کر ایک لمحے کیلے نمل کارنگ فق ہوا تھا۔۔
—————————
کہہ دو یہ جھوٹ ہے کہ آج جنگل میں حناوے رانا کے ساتھ ایک کتے نے کتوں والی کی ہے۔۔
ھدی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ وہ چاروں اس وقت حناوے کے کمرے میں تھیں۔۔
حناوے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔ پاؤں میں چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔
اور میں نے سنا ہے کہ ھدی رانا اور منال رانا کے ساتھ آج رانا ہاؤس والوں نے کتوں سے بھی گئی گزری کی ہے۔۔ حناوے کی بات پر تینوں کی ہنسی کو بریک لگی تھی۔
بھی چوٹ اسکے سر ، پاؤں اور باز و پر لگی تھی زبان پر تھوڑی ناجو وہ بند رہتی۔۔
ویسے بھی وہ کسی کا ادھار رکھنے کی قائل نہیں تھی۔
اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔ اتنی تو ہم سب کی روٹین وائز ہوتی رہتی ہے۔۔ملکوں کی حویلی کو ڈلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ بہرام ملک نے اپنے جیتنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔۔
مہمانوں کی آمد زور و شور سے جاری تھی۔ حویلی کے سارے مرد مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے۔۔
ایک وہ تھا جو بے زار سا بیٹھا تھا۔۔ اسے حویلی میں منقعد کی گئی ی کوئی کی تقریب پسند نہیں آتی تھی۔
وہ تو حیدر آباد کم کم ہی آتا تھا۔۔ اسکا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزرتا تھا۔۔
تم یہاں بیٹھے ہو اور اور دادا ابو تمہارا باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔
ارحم ملک نے اسے ڈرائینگ روم میں بیٹھتے ہو ے کہا۔ ارحم ملک اور امن ملک دونوں کزنز تھے۔۔
مجھے یہاں کی رونقیں بالکل متاثر نہیں کرتیں۔۔”
امن نے جواب دیا۔
کیوں یہاں کسی چیز کی کمی ہے۔۔؟؟ ارحم نے پوچھا۔ ”
دنیا کی سب سے خوبصورت چیز کی۔۔ “ امن نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔ ” اسکا اشارہ لڑکیوں کی طرف تھا۔
باہر جا کر دیکھو۔۔ سارا حسن جیسے حویلی میں جمع ہو گیا ہے۔۔ “ ارحم نے ” اسے خبر دی۔
کیا واقعی۔۔؟؟ دادا ابو کب سے لڑکیوں کو اپنی دعوت پر بلانے لگے۔۔ امن کو حیرت ہوئی –
لڑکیوں کو نہیں انکے والدین کو بلایا جاتا ہے۔۔ اور والدین جانتے ہیں کہ ملک خاندان میں جوان لڑکے موجود ہیں۔۔
اس لئیے وہ اپنی بیٹیوں کو ساتھ لاتے ہیں تاکہ خوش قسمتی کوئی کی لڑکی ہمیں پسند آجائے اور پھر ۔۔۔
ارحم نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ جس پر دونوں کا قہقہہ ابھرا۔
بے و قوف لوگ۔۔” امن نے زیر لب کہا۔
اچھا اب تم جلدی آجاؤ باہر ۔۔ میں ذرا حسن کا نظارہ کرلوں۔۔
ارحم کہتے ہوئے چلا گیا۔۔ جبکہ امن دوبارہ سے موبائل کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
———————–
فیس بک کو اوپر نیچے کرتے ہوئیے اچانک اسکی نظر ایک پر وفائل پر پڑی۔۔ وہ چونکا۔۔
جناوی_رانا #
زیر لب اس نے نام دہرایا۔۔
حناوے۔۔۔
“ اس نے پھر زیر لب دہرایا۔۔” عجیب و غریب اور بہت ہی انوکھا سا نام تھا۔ لیکن اسے اچھا لگا۔۔
امن نے پروفائیل پر لگی تصویر چیک کی۔ وہ بھی بہت عجیب تھی۔۔
کچھ پر اسرارسی۔۔ وہ منظر کسی جنگل کا تھا۔۔ دھند میں لپیٹے شاہ بلوط کے اونچے اونچے درخت اس منظر کو پر اسرار بنارہے تھے۔۔
ایک لڑکی شال لیٹے کیمرے کے دوسری طرف رخ کر کے کھڑی تھی۔۔
وہ ابھی اس تصویر پر غور کر ہی رہا تھا جب اسکے دوستوں کی آواز ابھری۔۔
ہیلوا من۔۔” اسکا گروپ اسلام آباد سے حیدر آباد پہنچ گیا تھا۔۔ اور امن نے موبائل بند کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔۔
اب وہ مکمل طور پر اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں تھے۔۔
————————————————-
پلیز!!!
خضر بھیا گاڑی یہیں روک لیں۔۔ ” امن نے گاڑی چلاتے خضر سے کہا جسکے چہرے پر سنجید گی چھائی تھی۔
را نا ہاؤس کے ساتھ ہی حیات ہاؤس تھا جو رانا ہاوس محل جیسا تو نہیں تھا مگر کم بھی نہیں تھا۔
دونوں گھر ایک دوسرے کے سامنے تھے ۔۔ امن نے گاڑی حیات ہاؤس کے سامنے روکنے کا کہا۔
مگر کیوں۔۔۔؟“، خضر حیران ہوا۔ ”
وہ نا آج آپی لوگوں کا رزلٹ آیا ہے۔۔ منال آپی اور ھدی آپی کی سپلیاں آئی کی ہیں۔۔
گھر میں بیگمات نے عدالت لگائی ہوئی ہی ہے۔۔
اور ھدی اور منال آپی کی بے عزتی زور و شور سے جاری ہے۔۔ امن کی بات سن کر خضر کو نا چاہتے ہوئے بھی ہنسی آگ ہی کی تھی جسے وہ چھپا گیا تھا۔
تو ۔۔ ؟؟“ اس نے پوچھا۔ ”
تو یہ کہ اگر حناوے آپی اس حالت میں گھر جائے گی تو بیگمات کا پارہ مزید ہائی کی ہو گا۔۔
آپ کے گھر چلتے ہیں نا پھو پھو آپی کی مرہم پٹی کر دیں گی۔۔
بیشک امن اور حناوے کی ہر گز نہیں بنتی تھی لیکن اس وقت امن کو حناوے پر بہت ترس آ رہا تھا کیونکہ وہ بہت معصوم بن کر بیٹھی تھی۔۔ جیسے ہوا ہی
نا ہو۔۔
ٹھیک ہے۔۔” خضر نے نا چاہتے ہوئے بھی جیپ اپنے گھر کے سامنے روک دی۔۔ اور امن چھلانگ لگا کر باہر نکلا اور حناوے کی طرف بڑھا۔
ناشرم نام کی کوئی کی چیز بچی ہے تم لوگوں کے پاس۔۔؟؟ ایک یہی کمی رہ گنی تھی وہ اب پوری ہو گئی ہی۔۔ منال اور ھدی سر جھکائے کھڑی تھیں۔۔ دونوں کی سپلیاں تھیں۔۔ جبکہ سماب ایک طرف صوفے پر بیٹھی ہمیشہ کی طرح کھانے میں مگن تھی۔۔
البتہ وقفے وقفے سے وہ ایک نگاہ ان دونوں پر ڈال لیتی تھی جنکی آئن لائی ان بے عزتی کی جارہی تھی۔۔
شہناز تائی کی کی توپوں کا رخ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی ھدی کی طرف تھا جو انتہا کی نکمی نکلی تھی۔
سارے بہن بھائی کی اتنے لائق فائق۔۔ اللہ جانے تم کس پر چلی گی ہو۔۔
آپ پر مما۔۔ ھدی نے دل میں سوچا مگر کہا نہیں۔۔”
، نمل نے مجھے پہلے کم تنگ کیا ہوا جو رہی سہی کثر تم پوری کر رہی ہو۔۔” ماریہ بچی نے اب اپنی بیٹی منال سے کہا۔
نمل سے یاد آیا حناوے کہاں ہے۔۔؟“ فاریہ بیگم کو اب اپنی بیٹی کا خیال آیا تھا۔
اور حناوے کے نام پر بریانی کھاتی سماب کو اچھو لگا۔۔۔۔ اس نے بریانی کی پلیٹ سائیڈ پر رکھی اور دبے قدموں ڈرائینگ روم سے نکل روم سے نکل گئی ۔۔
ہاں البتہ منال اور ھدی کی بے عزتی بنا کسی وقفے کے جاری تھی۔
، تم اس وقت وہ بھی اکیلے جنگل میں کیا لینے گئی کی تھی حناوے۔۔
” رخسار پھو پھو جو کہ خضر رانا کی ماں بھی حناوے کی چھلی ہوئی کی کہنی پر مرہم لگاتے پوچھ رہی تھی۔
مچھلیاں پکڑنے گئی کی تھی پھوپھو ۔۔ “
حناوے نے رونی صورت بنا کر کہا۔
، مگر کیوں۔۔؟
” رخسار پھو پھونے حیرانی سے پوچھا۔۔ انہیں اپنے شہید بھائی کی اغوان رانا کی یہ بیٹی بہت عزیز تھی۔
ایسے ہی۔۔ میرا دل کر رہا تھا۔۔ “ حناوے نے جواب دیا۔
اس وقت گھر سے اکیلے نہیں نکلا کرتے بیٹا۔۔ اگر کچھ ہو جاتا تو۔۔” رخسار پھوپھو کو پریشانی ہوئی ۔
——————-
ارے پھو پھو جانی۔۔
آج جو سین میں نے دیکھا نا قسم سے آپ دیکھتی تو مزہ آجاتا۔۔
دو بار آپی نیچے گری تھی۔۔ امن اپنی جون میں واپس لوٹ آیا تھا اور اب وہ حناوے کا مذاق اڑا رہا تھا۔
تم چپ کر ور نہ میں تمہارا خون پی جاؤں گی۔۔“ حناوے نے غراتے ہوئے کہا۔
ہونہہ ۔۔
رسی جل گئی ی پر بل نہیں گئی ۔۔ ” خضر جو اپنی فائل اٹھانے کمرے میں آیا تھا حناوے کی بات سن کر چپ نا رہ سکا.. اور طنزیہ کہا۔
، تم تو چپ ہی رہا کرو مسٹر سٹریل۔۔”
حناوے نے سوچا مگر کہہ ناسکی۔۔
کیونکہ مقابل ایس پی خضر حیات رانا تھا۔۔ !!
جسکا نام ہی اگلے بندے کو چپ کروانے کیلئے سے کافی ہوتا تھا۔۔
———————————————–
کیا ہو ا پریشان ہیں آپ رانا صاحب۔۔؟
” قدسیہ بانو نے اپنے ہمسفر خیام رانا کو سر پکڑے لیٹے دیکھا تو پوچھا۔۔
ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔۔ پچھلے دس سالوں آپ وزیر اعلی کے عہدے پر قائم تھے۔۔ بہت دفعہ بہرام ملک کو شکست اٹھانی پڑی۔۔ اور اس بار وہ جیت گیا۔
قدسیہ بانو نے درست کہا تھا۔
بات ہار جیت کی نہیں ہے۔۔ بات یہ ہے کہ وہ ظلم کے سر پر جیتا ہے۔۔” جانے لوگوں نے میری دس سال کی محنت کو اتنی آسانی سے بھلا کر اسے ووٹ کیسے دے دیے۔۔
خیام رانا نے جواب دیا۔
کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔۔ برائی کی زور پکڑ جاتی ہے۔۔ فتح حاصل کر لیتی ہے۔۔ مگر یاد رکھیں ایک نا ایک دن اچھائی کی ہی غالب آتی ہے۔۔
قدسیہ بانو ایک جہاندیدہ خاتون تھیں۔۔ وہ دونوں اب دادا دادی بن گئیے تھے۔۔ مگر آج بھی ایک دوسرے کا ساتھ پوری ایمانداری سے وہ رہ رہے تھے۔
حسن بیٹے کا کتنی بار فون آچکا ہے۔ اس سے بات کر لیں آپ۔۔ میں کھانا لگواتی ہوں۔۔
وہ کہہ کر اٹھ گئی ہیں۔۔ لوگوں کی باتوں سے بچنے کیلے وہ اپنی حویلی میں آگیا تھا۔۔ فون آف کر دیا تھا۔۔ مگر پریشانی پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔
———————————-
سب کچھ ریڈی ہے میم۔۔ ان شاء اللہ اگلے ہفتے ہم
حیدر آباد کا چکر لگائیں گے۔ میں نے فائل تیار کر لی ہے کہ ہم نے وہاں کے دیہاتوں میں کیا کیا نوٹ کرنا ہے۔۔
نمل نے فائل ذلیخہ میم کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
اتنا قیمتی NGO کودیتی –
شکر یہ بیٹا۔۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے تم اس وقت کو دیتی ہو۔۔
ذلیخہ میم نے مسکرا کر کہا۔۔ اسے اپنے سٹاف کی یہ ور کر بہت پسند تھی جو بے غرض ہو کر کام کرتی تھی۔
شکریہ کی ضرورت نہیں ہے میم۔۔ یہ میرا فرض اور شوق دونوں ہیں۔۔”
نمل نے اطمینان سے جواب دیا۔۔ اس نے صحافت کی پڑھائی کی کی تھی مگر وہ اپنی مرضی اور شوق سے اب ایک این جی او میں کام کر رہی تھی۔
اچھا اب تم جاؤ ۔۔ کافی رات ہو گی ہے۔ گھر پر سب تمہارا انتظار کر رہے ہونگے۔۔
اور میم آپ۔۔ “ ذلیخہ میم کی بات پر اس نے پوچھا۔ ”
میں بھی چلی جاؤں گی۔۔ ڈرائیور لینے آتا ہی ہو گا مجھے۔۔ بلکہ تم ایسا کرو ابھی مت جاؤ ہم تمہیں ڈراپ کر دیں گے۔۔
نہیں میم اٹس اوکے ۔۔ میں چلی جاؤں گی۔۔ میراگھر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔۔
نمل نے جواب دیا اور اپنا بیگ اٹھایا۔
شب بخیر میم ۔۔“ وہ مسکرا کر کہتی آفس سے باہر نکل گئی ی۔۔ اور ذلیحہ میم سوچ رہی تھی کہ اس لڑکی سے انہیں اپنی اپنی سی مہک کیوں آتی ہے۔۔؟؟
——————————
کافی رات ہو چکی تھی۔ نمل نے اللہ کا نام لے کر گھر کی طرف چلنا شروع کیا کیونکہ کوئی کی ٹیکسی اسے اس وقت نظر نہیں آرہی تھی۔
وہ کسی سے لفٹ نہیں لے سکتی تھی۔ اور گھر کال کر کے کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ تھی ہی ایسی نرم مزاج سی۔۔ سب کا خیال رکھنے والی۔
وہ ابھی کچھ دور تک ہی گئی کی جب ایک گاڑی جھٹکے سے اسکے پاس آکر رکی۔۔ اور اسکا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔۔
گاڑی سے نکلنے والے شخص کو وہ پہچان چکی تھی۔ وہ شاہ ویزرانا تھا۔۔ بڑے تایا (حسن رانا ) کا بیٹا۔۔ اور نمل کا منگیتر ۔۔
اسے دیکھ کر ایک لمحے کیلے نمل کارنگ فق ہوا تھا۔۔
—————————
کہہ دو یہ جھوٹ ہے کہ آج جنگل میں حناوے رانا کے ساتھ ایک کتے نے کتوں والی کی ہے۔۔
ھدی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ وہ چاروں اس وقت حناوے کے کمرے میں تھیں۔۔
حناوے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔ پاؤں میں چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔
اور میں نے سنا ہے کہ ھدی رانا اور منال رانا کے ساتھ آج رانا ہاؤس والوں نے کتوں سے بھی گئی گزری کی ہے۔۔ حناوے کی بات پر تینوں کی ہنسی کو بریک لگی تھی۔
بھی چوٹ اسکے سر ، پاؤں اور باز و پر لگی تھی زبان پر تھوڑی ناجو وہ بند رہتی۔۔
ویسے بھی وہ کسی کا ادھار رکھنے کی قائل نہیں تھی۔
اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔ اتنی تو ہم سب کی روٹین وائز ہوتی رہتی ہے۔۔
+ There are no comments
Add yours