Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Hinave Novel By Noor Rajpoot Complete

Episode No 20

حناوے از نور راجپوت 

جو دولت درد کی وہ دے گیا ہے

  اسے سنبھال کر رکھا ہوا ہے

ابھی آباد ہے گلشن جنوں کا

تری یادوں سے جو مہر کا ہوا ہے

 مجھے سجاد اس میں قید رکھو !!

محبت ہی مری ابدی سزا ہے

علیزے جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر لگارہی تھی۔ اسکے چہرے پر گہری پریشانی تھی۔ وہ کب سے امن کو فون کر رہی تھی لیکن وہ اسکا فون نہیں اٹھا رہا تھا۔

امن پلیز فون اٹھائیں ایک بار مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔ ” علیزے نم لہجے کے ساتھ اسے وا سی میسج کیا تھا۔ وہ ڈھیروں میسجز کر چکی تھی لیکن امن نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا تھا۔

علیزے کا چہرہ رونے کے باعث سرخ ہو چکا تھا اور اسکی آنکھیں سوجن کا شکار تھی۔۔ چہرے پر زردی سی گھل گئی  تھی۔ ملازمہ اس دو بار کھانے کیلے بلانے آچکی تھی لیکن اس نے  میر ا دل

نہیں مجھے بھوک نہیں کہہ کر منع کر دیا تھا۔

اب وہ بیڈ پر بیٹھ گئی  تھی۔ دل کر رہا تھا کہ دھاڑیں مار کر روئے۔۔ محبت نے اس سے کتنی بڑی غلطی کروادی تھی اسے اب احساس ہو رہا تھا۔

 امن پلیز ایک بار میری بات سن لیں۔۔” اذیت اور بے بسی کی آخری حد پر آکر وہ امن کی منتیں کرنا شروع ہوگئی  تھی۔

لیکن امن کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

سگریٹ کا دھواں کمرے میں پھیلا تھا۔ میز پر رکھا امن کا فون جل بجھ رہا تھا۔ کمرے میں ایک طرف خان سر جھکائے کھڑا تھا۔

وہ کبھی نظریں اٹھا کر امن کو دیکھ لیتا جسکا وہ غلام تھا۔۔۔

اور امن اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا تو کبھی جلتے بجھتے فون کو۔۔ لیکن وہ زبان سے کچھ نہیں بولا تھا۔

علیزے کے بار بار فون سے تنگ آکر امن نے فون اٹھایا تھا۔

کیا مصیبت ہے یار۔۔ کیوں بار بار فون کر کے تنگ کر رہی ہو۔۔؟؟

امن کے لہجے میں حد درجہ کی بیزاری تھی۔

من۔۔ امن ۔۔ وہ میں ۔۔” اسے علیزے کا نم لہجہ سنائی دیا تھا۔

بولو کیا ضروری بات کرنی ہے۔۔؟؟ امن نے کوفت میں مبتلا ہوتے ہوئے کہا۔ اس روتی اور وقت شکوے کرتی لڑکیاں نہیں پسند تھیں۔

ا من ۔۔ وہ میں ۔۔”

کیا میں میں لگارکھی ہے۔۔ جلدی بولو میں مصروف ہوں۔۔” امن نے غصے سے کہا تھا۔

میں پریگننٹ ہوں۔۔”

علیزے نے گو یاد ھما کہ کیا تھا۔ یہ خبر دینے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

تمہار ادماغ خراب ہے علیزے۔۔ تم ہوش میں تو ہو کیا بول رہی ہو۔۔” امن کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔

‏ میں سچ کہہ رہی ہوں امن ۔۔ علیزے اب بری طرح سے رورہی تھی۔ امن نے بے ساختہ اپنی پشانی مصلی۔

تو میں کیا کروں اب۔۔؟؟ امن نے سرد لہجے میں پوچھا۔

کیا مطلب ۔۔ آپ کیا کرینگے ۔۔؟؟ ہمیں شادی کر لینی چاہیے۔۔” علیزے نے اپنی طرف سے تجویز پیش کی تھی۔

ہاہاہا شادی واہ..” امن نے قہقہہ لگایا۔

ہنسیں مت امن۔۔ میں جانتی ہوں آپ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتے۔۔” ہم چھپ کر نکاح کر لیتے ہیں۔۔ آپ صحیح وقت پر سب کو بتادیجئے گا۔۔ علیزے نے اسکی مشکل دور کرنا چاہی تھی۔

دیکھو علیزے مجھے اب کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے۔۔ اور بات یہاں تک  پہنچی اس میں تمہاری غلطی ہے۔ بہتر ہو گا اپنی غلطی کو خود سدھارو۔۔

امن نے دوٹوک لہجے میں کہا تھا۔ علیزے اپنی جگہ سن رہ گئی  تھی۔ کیا صرف اسکی غلطی تھی ؟؟ امن سب کچھ سونپ دیا تھا۔۔ پھر بھی اسکی ہی غلطی تھی۔

اور آئیندہ مجھے فون مت کرنا۔۔ مجھے تم میں بھی کوئی کی دلچسپی نہیں رہی۔۔

امن کی بات سن کر علیزے کا سانس جیسارک سا گیا تھا۔۔ اس نے اپنے آپ کو گہری کھائی میں گرتے پایا تھا۔ وہ امن کی محبت میں بری طرح سے ڈوب چکی تھی۔۔ اس سے الگ ہونے کا تصور وہ خواب میں بھی نہیں کر سکتی تھی۔

امن میں مر جاؤں گی۔۔” علیزے نے بند ہوتی دھڑکن کے ساتھ کہا تھا۔

تو مر جاؤ ۔۔ لیکن آئیندہ مجھے فضول کے ڈرامے کر کے تنگ مت کرنا۔۔

وہ بے حسی کے سارے ریکاڑ توڑ کر بولا تھا۔ اور علیزے ہاتھ سے فون چھوٹ کر گود میں گر چکا تھا۔۔

وہ بے جان سی بیٹھی امن کی باتوں پر غور کر رہی تھی۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اس سے امن نے کہا تھا۔۔

اسکا امن ملک۔۔ جسکے واسطے وہ سب لٹا چکی تھی۔ لیکن یہی سچ تھا۔۔ ایک تلخ اور کڑوا سچ ۔۔ جسے اب علیزے از میر کو ساری عمر جھیلنا تھا۔

کیا بات ہے آج ڈائین بڑی خاموش اور اداس ہے۔۔ کسی کا بچہ نہیں ملا کیا کھانے کیلئیے۔۔؟؟

حناوے کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر امن کی رگ شرارت پھڑ کی۔

، تم بچ جاو بس تمہیں نا کھا جاؤں کہیں میں ۔۔” حناوے نے گھورتے ہوئے کہا۔

خیریت تو ہے۔۔ باقی تین چڑیلیں کہاں ہے۔۔ لڑائی تو نہیں ہوئی ۔۔؟؟ امن نے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

نہیں لڑائی  نہیں ہوئی ۔۔ بلکہ ۔۔” حناوے نے کچھ کہنا چاہا تھا۔

“بلکہ ؟؟ ،

میں شرط ہارگی  ہوں اب مجھے جو سزا ملی ہے سمجھ نہیں آرہا اسے کیسے “پورا کروں۔۔

حناوے کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر امن سیدھا ہو کر بیٹھا۔ جو بھی تھا وہ ڈائین اسی کی بہن تھی اور اسکی اداسی امن سے نہیں دیکھی جاتی تھی۔

مجھے ڈانس کرنا ہے جو بالکل نہیں آتا۔۔ “

حناوے نے اسے سنجیدہ دیکھ کر بتایا۔

بس۔۔ اتنی سی بات۔۔”

یہ اتنی سی بات نہیں ہے امن ۔۔” حناوے روہانسی ہو کر کہا۔

حناوے رانا کیلے کچھ مشکل ہے کیا ؟؟ نہیں نا۔۔ تو پھر ۔۔؟؟”

 امن نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

فکر نہ کروڈائین۔۔ تمہارا بھائی کی ابھی زندہ ہے۔۔ یاد کر لو ذرا مجھے ڈانس  آتا ہے۔۔ چلو میں سکھاتا ہوں۔۔ امن نے اسکا استاد بنتے ہوئیے کہا۔

“واقعی؟؟

حناوے کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

ہاں آجاؤ ۔۔ اب دیکھنا وہ تینوں چڑیلیں تمہار ا ڈانس دیکھ کر دنگ رہ  جائیں گی۔۔ امن نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔ جبکہ حناوے کی آنکھیں چمکی تھیں۔

پچھلے تین دنوں سے حناوے کمرہ بند کیا پورے دل و جان سے ڈانس سیکھنے میں مگن تھی۔ کالج سے آنے کے بعد وہ کمرے میں بند ہو جاتی تھی۔

هدی، منال اور سماب اسکے کمرے کے باہر کان لگا کر کھڑی ہو جاتیں اور پھر کھی کھی کرتی تھیں۔

هدی نے اچھا پھنسایا تھا حناوے کو۔ امن نے اسکی کافی مدد کی تھی۔

ارے ڈائین ایسے نہیں ۔۔ ایسے ہو گا بازو۔۔ “

 امن نے اسکا بازو پکڑ کر تھوڑا سا ٹیڑھا کیا وہ کسی مہان گرو کی طرح حناوے کو اسکی غلطیاں بتارہا تھا۔

 پہلے مجھے ڈائین کہنا بند کرو ورنہ ۔۔” حناوے نے پھاڑ کھانے والے انداز میں امن سے کہا تھا۔ وہ تھک گئی  تھی۔ لیکن ہمت نہیں ہار سکتی تھی۔

اپنی شکل دیکھو ذرا آئینے میں ۔۔ ڈائین ہی لگ رہی ہو۔۔ “

امن کونسا پیچھے رہنے والا تھا۔

میں تھک گئی  ہوں بس مجھ سے نہیں ہوتا۔۔ ” حناوے نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

پانچ سال چھوٹا ہوں میں ڈائین سے۔۔ میں نہیں تھکا اور ڈائین تھک  گئی ۔۔

اب کی بار امن نے جان بوجھ کر حناوے کو چھیڑا۔ حناوے بس اسے گھور کر رہ گئی  تھی۔ اسے کسی صورت اپنی ہار قبول نہیں تھی۔ اور امن لڑکا کم ان چاروں کے در میان رہ کر جیسے لڑکی زیادہ بن گیا تھا۔ اور حناوے بھی اسے اپنی چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کرتی تھی۔

میں کر لوں گی اب۔۔ بس اتنا کافی ہے۔۔” حناوے نے اپنے پاؤں کو ہاتھ سے دباتے ہوئےکہا جن میں درد ہو رہا تھا۔ اتنی شدید ٹھنڈ میں بھی اسے پسینہ آگیا تھا۔

میں کھانے کو کچھ لاتا ہوں۔۔” امن کی اسکی حالت سمجھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ حناوے بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گئی ۔

کیا قصور تھا میرے بیٹے کا جو اسے اتنی بری سزا ملی۔۔ کیا قصور تھا صاحب  اسکا۔۔

ایک بوڑھی عورت ارحم کے سامنے بیٹھی رورہی تھی۔

یہ اویس کی ماں تھی۔

اویس کی کہانی سن کر ارحم کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا تھا۔ اسے امن سے یہ امید نہیں تھی وہ اتنا ظالم کیسے ہو سکتا تھا۔

وہ لڑکی جو میرے بیٹے کی محبت تھی وہ پاگل ہو گئی کی ہے۔۔ میں اسے  دیکھنے گئی  تھی۔۔ پورا گاؤں کہہ رہا تھا کہ وہ گاڑی ملکوں کی تھی۔۔ عورت نے روتے ہوئے بتایا۔

میں یہاں اس انسان کو بد دعا دینے آئی تھی۔۔ پوچھنے آئی  تھی کیوں کیا اس نے یہ سب ۔۔؟؟ میرا جوان بیٹا زندگی سے منہ موڑ گیا۔۔ عورت ابھی بھی رورہی تھی۔

وہ صبح صبح امن گھر کے باہر پہنچ گئی  تھی۔ اندر آنا چاہتی تھی لیکن گارڈ نے آنے نہیں دیا۔۔ امن گھر نہیں تھا۔ ارحم رات ہی امن سے ملنے آیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ امن یہ سب کر رہا تھا۔

میں حیران ہوں ایک ہی گھر میں دو اتنے مختلف لوگ کیسے ہو سکتے ہیں۔۔ ” اللہ پوچھے گا۔۔ میری فریاد سنے گا۔۔

وہ نہیں چھوڑے گا ظالم کو۔۔ وہ بوڑھی عورت جسکا سائبان سر پر نہیں تھا وہ اکیلے بیٹے کا غم مناتی پھر رہی تھی۔ لوگوں سے پوچھتے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ یہاں تک پہنچ گئی  تھی۔

گیٹ سے باہر کھڑی وہ زار و قطار رو رہی تھی اور امن کو بد دعائیں دے رہی تھی۔

جب ارحم نے یہ سب دیکھا تو وہ اسے اندر لے آیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ امن گھر نہیں تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ارحم جیسے نیک اور رحم دل انسان کا بھائی کی اتنا ظالم ہو سکتا تھا۔

اس عورت کی باتیں سن کر ارحم مثل سا بیٹھا تھا۔ غصے کی لہر اسکے پورے جسم میں پھیل گئی  تھی۔

                                             

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

    Leave a Reply

    Your email address will not be published. Required fields are marked *